سچ خبریں:جب کہ شام میں دوبارہ داخلے کے لیے عرب لیگ کے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور بعض عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، مصر اور الجزائر شام کو عرب لیگ میں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ریاض نے بھی اس میں ہری جھنڈی دکھا دی ہے، تاہم امریکہ اپنے آپ کو بڑا دکھانے کے لیے شام کے لیے شرطیں رکھ رہا ہے۔
سعودی عرب کی میزبانی میں عرب ممالک کے سربراہان کا 32 واں اجلاس 29 مئی کو ہونے والا ہے جس میں ممکنہ طور پر ایران، شام اور ترکی کے صدور کو مدعو کیا جائے گا،یقینی طور پر یہ اجلاس نہ صرف خطے کے لیے بلکہ اس موجودہ دور میں پوری دنیا کے لیے بہت اہم ہو گا جب خطہ اور دنیا کچھ تلخ واقعات جیسے شام میں جنگ ، یمن کی جنگ، لبنان اور فلسطین کی پیچیدہ صورتحال اور یوکرین کی جنگ جیسے بحرانوں سے گذر رہا ہے۔
سعودی عرب میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کا ایک اہم موضوع شام کے صدر بشار الاسد کی موجودگی ہے اور اس معاملے کے حامیوں اور مخالفین نے اس پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا ہے، تاہم خطے کے بہت سے عرب ممالک، جن کے پہلے شام کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے ،یا جن کے اس ملک کے ساتھ تعلقات بہتر تھے،سب نے ایک ساتھ عرب لیگ میں شام کے دوبارہ ظہور کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے ایک نیک شگون قرار دیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ صیہونی حکومت اور غاصب حکومتوں نہیں بھایا اورتل ابیب حکومت کی طرف سے شام میں حالیہ بمباری کی ایک وجہ اسی اقدام پر ردعمل ہے جبکہ حالیہ مہینوں اور سالوں میں امریکہ کا کردار دھندلا ہوچکا ہے اور چند عرب ممالک ایسے ہیں جو ماضی کی طرح واشنگٹن کے حکم پر کان نہیں دھرتے جس کا نتیجہ اوپیک+ کے ارکان کی جاجب سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مخالفت کے باوجود تیل کی پیداوار میں کمی کی صورت میں دیکھنے میں آیا لیکن امریکی حکام یہ قبول نہیں کرنا چاہتے کہ امریکہ اب وہ طاقت نہیں رہا جو پہلے تھا اور نہ ہی اب وہ ساکھ رکھتا ہے۔
عرب لیگ میں شام کے دوبارہ ظہور کے حوالے سے واشنگٹن حکام کے حالیہ اقدامات اور رد عمل میں سے ایک بیروت میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے امور مشرق وسطی باربرا لیو کے حالیہ الفاظ میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں لبنانی حکام کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے شام کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے عرب ممالک کے موقف کی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا اور مایوسی کے ساتھ کہا کہ واشنگٹن اس ملک کی عرب لیگ میں واپسی کو ویٹو نہیں کرے گا تاہم اس کے لیے ہماری کچھ شرطیں ہیں، امریکہ نے اس سلسلے میں دو شرائط رکھی ہیں؛ پہلی شرط یہ ہے کہ شام کو عرب لیگ میں واپس کرنے کا فیصلہ ایک مشترکہ عرب موقف کا نتیجہ ہونا چاہیے ہے، جس کے تحت تمام عرب نہ کہ کچھ شام کو عرب لیگ میں واپس لے جانے کے لیے تیار ہوں اور دوسری شرط یہ ہے کہ یہ واپسی مفت اور بغیر کسی قیمت کے نہیں ہوگی بلکہ اس مفاہمت کا حصہ ہونی چاہیے جس میں یہ طے کیا جائے کہ شام عرب لیگ میں واپسی کے بدلے عربوں کو کیا دے سکتا ہے۔
لبنانی اخبار الاخبار نے اس تناظر میں لکھا ہے کہ ان دو شرائط کے علاوہ، امریکی توقع رکھتے ہیں کہ دمشق اپنی عرب لیگ میں واپسی کے لیے ضروری رعایت دے گا جو دمشق اور تہران کے تعلقات میں کمی ہوگی جس پر واشنگٹن خصوصی توجہ دیتا ہے،الاخبار نے شام کے صدر بشار الاسد کی موجودگی کے ساتھ ریاض میں عرب رہنماؤں کے آئندہ اجلاس کے انعقاد کے امکان اور سعودی عرب کی جانب سے انہیں اس اجلاس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دینے کی تیاری کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ امریکی اس اجلاس سے چاہتے ہیں کہ شام کی واپسی کی توثیق کرنے والے عرب لیگ اجلاس کے حتمی بیان میں ایک شق شامل کی جائے جس میں اس ملک کی جنگ کے حوالے سے سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر دمشق کے عزم کی ضرورت پر زور دیا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ شام کا بڑھتا ہوا میل جول واشنگٹن کے لیے اس قدر تشویشناک ہے کہ چند روز قبل بعض سابق امریکی حکام نے جو بائیڈن کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ شام کے تعلقات کو بہتر ہونے سے روکے،امریکی اخبار پالٹیکو نے حال ہی میں اس بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سابق امریکی حکام اور ماہرین کے ایک گروپ نے امریکی حکومت کو ایک خط بھیجا ہے اور اپنے ملک کے حکام سے کہا ہے کہ وہ شام کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی قربت کو روکنے کے لیے مزید کوششیں کریں، چند روز قبل بائیڈن اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو بھیجے جانے والے اس خط میں کہا گیا ہے کہ دمشق حکومت کے ساتھ غیر مشروط تعلقات کو معمول پر لانا مجبوری نہیں ہے، اس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت صرف الفاظ میں کافی نہیں ہے،خاموش منظوری دور اندیشی اور خطے میں سلامتی اور استحکام کی کسی بھی امید کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس خط پر دستخط کرنے والوں نے، جو واضح طور پر عرب ممالک کے ساتھ دمشق کی قربت سے بہت ناخوش ہیں، بائیڈن انتظامیہ کی شام کے حوالے سے پالیسیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور غیر ملکی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ داعش کے مشتبہ دہشتگردوں اور ہزاروں قیدیوں کی واپسی کے لیے مزید شامی حکومت پر دباؤ ڈالیں، اس خط کے بھیجے جانے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا کہ واشنگٹن کبھی بھی اسد حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائے گا اور کسی بھی ملک کو ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دے گا، جس سے خطے میں ہونے والی مثبت پیش رفت پر امریکہ کا غصہ ظاہر ہوتا ہے۔
لیکن اہم بات یہ ہے کہ عرب ممالک دمشق کے ساتھ پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور وہ اب آنکھیں بند کرکے واشنگٹن کی پیروی نہیں کرنا چاہتے،یاد رہے کہ گزشتہ چند سالوں میں، جیسا کہ خطے کے ممالک نے امریکہ کی پالیسیوں پر عمل کیا، جس کا مقصد صیہونی حکومت کی سلامتی کو یقینی بنانا تھا، شام کو بہت سے نقصانات پہنچائے، جس کے نتیجے میں 600000 سے زیادہ شامی مارے گئے نیزاس ملک کے 12 ملین سے زیادہ شہریوں کی نقل مکانی ہوئی، خطے کے ممالک کے موجودہ عمل کا آغاز، جو شام کے ساتھ ہم آہنگی اور دمشق کے ساتھ غلط فہمیوں کو دور کرنے پر مبنی ہے، ایک درست عمل ہے جو علاقائی حکام کی اپنے ماضی کی طرف واپسی اور حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ یقیناً عرب ممالک کی طرف سے امریکہ کی بے توقیری اور خطے کے مفادات پر ان کی توجہ نیز عربوں اور ارد گرد کے دیگر ممالک جیسے ایران کے درمیان ہم آہنگی خطے کی کامیابی اور ان ممالک کی طرف سے دوسروں کی موجودگی کے بغیر اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی کلید ہے۔