سچ خبریں:موساد کے ایک سابق انٹیلی جنس عہدیدار نے پہلی بار انکشاف کیا ہے کہ عراق کے جوہری پروگرام کو کیسے تباہ کیا گیا اور 1970 کی دہائی میں ایک مصری جوہری سائنسدان کو کیسے قتل کیا گیا۔
شہاب ویب سائٹ کے مطابق موساد کے ایک سابق اعلیٰ عہدے دار ہارون شیرف نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ ہی نومبر 1975 میں جیسے فرانس نے عراق کو نیوکلیئر ری ایکٹر سے لیس کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے، اسرائیل کی انٹیلی جنس سروسز نے اپنے خفیہ اداروں کو خفیہ طور پر استعمال کرتے ہوئے ڈکٹیٹر صدام کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے آپریشن شروع کردیا۔
اس رپورٹ کے مطابق موساد نے یہ خفیہ کوششیں صیہونی حکومت کے ملٹری انٹیلی جنس یونٹ 8200 اور 81 نیز صیہونی ایٹمی توانائی تنظیم کے تعاون سے شروع کیں، موساد کے عناصر نے اپنی حرکتیں شروع کر دیں جن کا ایک ہدف روم کے مضافات میں ایک اطالوی انجینئر تھا جسے فرانسیسی کمپنی فریم آٹومیٹک نے ایک اطالوی کمپنی کے ذریعے ملازمت پر رکھا تھا، 1976 کے وسط میں ایک دن اس نیوکلیئر انجینئر کے گھر کے دروازے پر ایک چھوٹا سا پیکج پھٹ گیا جس سے عمارت کے داخلی دروازے کو بہت معمولی نقصان پہنچا لیکن دھماکے کی آواز سن کر علاقے کے رہنے والے لوگ وہاں پہنچ گئے ، چند منٹ بعد پولیس پہنچی لیکن وہ دو لوگوں کو مذکورہ انجینئر سے بات کرتے دیکھ کر حیران رہ گئی، یہ دونوں لوگ موساد کے ایجنٹ تھے جو اس سے اس کے پیشہ ورانہ کام کی تفصیلات کے بارے میں بات کررہے تھے، جس کے بارے میں صرف وہی جانتے تھے۔
اطالوی انجینئر کو ڈر تھا کہ موساد کے ایجنٹ انہیں مار ڈالیں گے اور اس تشویش نے انہیں اپنے کام کی جگہ کے بارے میں تمام معلومات فراہم کرنے پر مجبور کر دیا، اطالوی انجینئر کو استعمال کرنے کی موساد کی کوششیں کامیاب ہوئیں چنانچہ تین سال بعد انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کا سفر کیا۔
ایک اور ٹارگٹ جو موساد چاہتی تھی وہ فرانس میں کوئی تھا، جس کے لیے ایک عرب ملک کا ایک افسر فرانس گیا تاکہ معاملے کی تحقیقات کر سکے،موساد کے عناصر اس بات کا اندازہ لگا رہے تھے کہ اسے کیسے جال میں پھنسایا جائے، پہلے تو ان کے لیے یہ مشکل تھا خاص طور پر چونکہ وہ ایک مسلمان اور قوم پرست شخص تھا،موساد کے عناصر نے اپنی تفصیلی منصوبہ بندی شروع کر دی، انہیں معلوم ہوا کہ ان کا ہدف فرانسیسی نہیں بولتا اور وہ اپنے کام کی جگہ پر بھی زیادہ مقبول نہیں، صیہونی جاسوسوں نے اس کے کمزور نکات کی نشاندہی کی اور ان سے فائدہ اٹھایا، کالم نگار نے آگے کہا ہے کہ اس افسر کو پھنسانا جسے بعد میں اپنے ملک میں خدمات کے دوران ترقی دی گئی، ان کی اعلیٰ ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
کالم نگار کے مطابق اس وقت کے صیہونی وزیر اعظم مناخیم بیگن کی جانب سے تخریب کاری اور قتل عام سمیت حفاظتی اقدامات کا حکم دیے جانے تک صورت حال پرسکون تھی، تاہم جیسے ہی یہ حکم جاری ہوا، موساد نے فوری طور پر اس پر کام کرنا شروع کر دیا اور اپریل 1979 میں فرانس کے جنوب میں واقع شہر ٹولن کے قریب ایک قصبے میں تخریب کاری کی پہلی کارروائی کی جس کا نشانہ الیکٹریکل پرزوں اور نیوکلیئر ری ایکٹرز کی تیاری کے شعبے سے منسلک سی ایم آئی ایم کمپنی کے گودام تھے، صیہونی کمانڈر مائیک ہراری کی قیادت میں 15 افراد جائے حادثہ پر پہنچے اور خفیہ طور پر جائے وقوعہ میں داخل ہونے کے لیے دو جنگی طیاروں کی مدد لی جنہوں نے لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے جائے وقوع کے قریب پروازیں شروع کیں، اسی دوران موساد کے عناصر جائے وقوعہ میں داخل ہو گئے اور دو کنٹینرز پر ٹائم بم رکھے جس کے ایک گھنٹے کے اندر ہونے والے یکے بعد دیگرے دھماکوں نے مذکورہ جگہ کو ہلا کر رکھ دیا، یہ بڑے کنٹینرز عراق کے پاور پلانٹس کے لیے جوہری مواد لے جانے والے تھے جنہیں آنے والے دنوں میں بغداد بھیجا جانا تھا، تباہ ہوئے لیکن تخریب کاری کی اس کارروائی سے مذکورہ جگہ کے آلات کو شدید نقصان نہیں پہنچا اور آلات کو مرمت کے بعد بغداد بھیج دیا گیا۔
واضح رہے کہ جب عراقی پاور پلانٹ کی تعمیر کا کام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا تو موساد کے نائب نے مناخیم بیگن کو بتایا کہ عراق کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کا منصوبہ اپنے مقصد تک نہیں پہنچا جس کے بعد 7 جون 1981 کو صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے بغداد کے قریب تموز ری ایکٹر پر بمباری کرکے اسے مکمل طور پر تباہ کردیا۔ ری ایکٹر پر بمباری سے ٹھیک ایک سال قبل 14 جون 1980 کو مصری انجینئر یحییٰ المشاد اور عراق کے ایٹمی پروگرام کے سب سے بڑے انجینئر کی لاش پیرس کے ایک ہوٹل میں ان کے کمرے سے ملی،جن کا قتل بھی موساد کے عناصر کا کام تھا۔