سچ خبریں: آیت اللہ خامنہ ای کا جملہ کہ صیہونی حکومت جانے والی اس وقت حقیقت میں بدل چکا ہے اور عرب رہنماؤں کو یہ سمجھنے پر مجبور کیا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات پر انحصار بوسیدہ رسی کے سہارے کنویں میں اترنے کے مترادف ہے۔
خطے کی کئی عرب حکومتوں کے سربراہان اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گروپ فوٹو کو ابھی کچھ ہی سال گزرے ہیں،ابراہیم معاہدے میں صیہونی حکومت، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کا ایک مشترکہ بیان شامل تھا جو 13 اگست 2020 کو کیا گیا، اس معاہدے کو بالترتیب صیہونی حکومت اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدے اور بحرین اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے لیے بھی استعمال کیا گیا،ابراہم معاہدے پر دستخط کی تقریب 15 ستمبر 2020 کو وائٹ ہاؤس میں منعقد ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بن سلمان کی تین شرائط
اس معاہدے پر دستخط کے بعد اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ فلسطینی امریکہ کا ساتھ دیں گے اور اسرائیل کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا عہد کریں گے،معاہدے پر دستخط کے موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب سمیت پانچ ممالک جلد ہی اس معاہدے میں شامل ہو سکتے ہیں جبکہ سوڈان اور عمان مختصر مدت میں بہتر امیدوار ہیں۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین ابراہیم معاہدے کے نام سے مشہور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے علمبرداروں میں شامل تھے جبکہ اس سے قبل مصر اور اردن نے بالترتیب 1979 اور 1994 میں صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو عام کیا تھا۔
سعودی عرب اور تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل
صیہونی حکومت کے ساتھ سعودی انٹیلی جنس تعاون کی تاریخ کئی دہائیوں پرانی ہے اور یہ تعلقات روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں، حالیہ برسوں میں ابراہیم معاہدے کے معاملے کے ساتھ ہی سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاملہ میڈیا، سیاسی اور بین الاقوامی حلقوں میں زیادہ نمایاں ہو گیا، سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات سکیورٹی اور انٹیلی جنس تعاون سے شروع ہوئے، جن میں غیر اسرائیلی پاسپورٹ کے ساتھ اسرائیلی شہریوں کا سفر بھی شامل تھا۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے چند روز قبل بن سلمان نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی اہمیت پر بات کی،
شرق الاوسط کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ریاض ہر روز تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے لیکن صرف فلسطینیوں کے اہداف کی تکمیل کی شرط پر جکبہ بلاشبہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد سعودی عرب اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے عمل کو معطل کرنے کے حوالے سے کئی خبریں شائع ہوئی ہیں حتیٰ کہ بعض سعودی حکام نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
صیہونی حکومت کے ساتھ کئی عرب ریاستوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل ان برسوں کے دوران ہوا ہے جبکہ عرب اقوام بیت المقدس کی قابض حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے خلاف ہیں۔
عربوں کا ہوا پر تکہ دینا
خطے کے عرب حکمرانوں کو اپنے ملک میں عوام میں مقبولیت اور قانونی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے اپنے تخت کو برقرار رکھنے کے لیے امریکہ اور صیہونی حکومت جیسی استکباری طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، اس حوالے سے ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ہم سعودی عرب کی حفاظت کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ کیونکہ وہ امیر ہیں اس لیے ہم ایسا کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ میں سعودی عرب کے بادشاہ کو چاہتا ہوں اور میں نے ان سے کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے اس لیے ہماری کی حمایت کے بغیر آپ شاید دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکیں گے لہذا آپ کو اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کرنا ہوگا۔
دوسری جانب جب کہ صیہونی حکومت کے ساتھ متعدد عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی گاڑی ایسے وقت میں آگے بڑھ رہی تھی جبکہ یہ جعلی حکومت حالیہ برسوں میں شدید اندرونی بحرانوں سے نبرد آزما تھی،بحران، ،غیر معمولی عدم تحفظ ،انتفاضہ ،خانہ جنگی ،سماجی دھماکہ اور آخر میں… تباہہ یہ وہ الفاظ ہیں جو کئی مہینوں سے صیہونی حکومت کے میڈیا میں غیر معمولی طریقے سے داخل ہوئے ہیں اس طرح سے کہ تجزیہ کار حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت جس صورت حال میں پھنس چکی ہے اسے بیان کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت میں 5 انتخابات ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ 5 کابینہ گر چکی ہیں،صیہونی حکومت کے سربراہ اسحاق ہرزوگ نے گزشتہ سال اس حکومت کے داخلی بحران پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اسرائیل میں ہر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ صورت حال بارود کی طرح ہے جو ایک شدید داخلی تنازع کی طرف بڑھ رہی ہے۔ … میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم بہت سنجیدگی سے ایک شدید تنازعہ کے قریب پہنچ رہے ہیں،صیہونی فوج کے سابق ترجمان رونین منلیس نے بھی اس سلسلے میں کہا کہ اسرائیل کی موجودہ صورت حال گزشتہ 20 سالوں میں سب سے زیادہ خراب ہے۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران تل ابیب، حیفا، مقبوضہ بیت المقدس، بئر السبع، ریشون لیٹزیون اور ہرتزلیہ سے لے کر مقبوضہ فلسطین کے شمال سے جنوب تک درجنوں شہروں نیتن یاہو کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے،انتہاپسند کابینہ اور صیہونی حکومت کے عدالتی نظام میں تبدیلی کے بل اور دیگر کئی مسائل جنہیں عالمی صیہونیت مقبوضہ علاقوں میں مختلف نسلی، مذہبی گروہوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے لیے عالمی سطح پر استعمال کررہی تھی، تاہم اب یہی تنازعات کا موضوع بن گئے ہیں۔
اس سلسلے میں صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرتزی ہاولووی نے خبردار کیا ہے کہ صہیونیوں کے درمیان اختلافات اور پولرائزیشن کی صورتحال فوج تک بھی پھیل جائے گی۔
اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں موجودہ سیاسی تفرقہ فوج تک پھیلا ہوا ہے جو مزید گہرا ہو جائے گا ، اگر یہ صورت حال جاری رہی تو فوج میں ایک قسم کی کشمکش اور دھڑے بندی ہو جائے گی۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ عرب رہنما ایک ایسی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں جو اندرونی طور پر اتنے گہرے بحرانوں سے نمٹ رہی ہے اور دنیا کی سب سے زیادہ مسلح فوج رکھنے کے باوجود کئی مزاحمتی گروہوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں؟!
جعلی حکومت کے خاتمے کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کی بارہا وارننگ
حالیہ برسوں میں آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے مختلف خطابات میں بارہا اس بات کا تذکرہ کیا کہ صیہونی حکومت زوال پذیر اور تباہ ہو رہی ہے، آیت اللہ خامنہ ای نے غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینی نوجوانوں کا پہلے سے زیادہ زندہ، توانا اور مستعد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان شاء اللہ یہ تحریک ثمر آور ہو گی ،انہوں نے غاصب حکومت کو ایسا کینسر قرار دیا جس کا پورے خطے میں مزاحمتی قوتوں کے ہاتھوں قلع قمع کر دیا جائے گا۔
طوفان الاقصیٰ عام لوگوں کے لیے کیا لے کر آیا؟
اب طوفان الاقصیٰ شروع ہونے کے بعد خطے میں ایک نئی سازش کو فروغ دینے اور صیہونیوں کے ساتھ معمول پر لانے کے عرب، مغربی اور امریکی رہنماؤں کے بہت سے منصوبے رک گئے ہیں۔ سعودی حکام جو اس آپریشن سے پہلے یہ کہتے تھے کہ ان کے صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اپنے حالیہ بیانات میں اس سلسلہ میں اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹ گئے، چاہے صرف ظاہری شکل میں ہی کیوں نہ ہو، انہوں نے حماس کی مذمت کرنے کی امریکی درخواست بھی مسترد کر دی۔
امریکی ویب سائٹ Axios نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات رکھنے والے کئی عرب ممالک نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد حماس کی مذمت کرنے کی واشنگٹن کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ اور میڈیا آؤٹ لیٹ سعودی پوسٹ نے بھی خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو مطلع کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات ختم کر دے گا۔
آخری بات
صیہونی حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کے حوالے سے کئی عرب ممالک کو قیادت کی آیت اللہ خامنہ کی آخری وارننگ اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد سے عرب رہنماؤں کو جعلی صیہونی حکومت کے ساتھ معمول پر آنے کے عمل میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے اب تک بہت سارے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا ریاض صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے گا ؟
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق نارملائزیشن کا مستقبل ماضی کی نسبت تاریک ہے اور اس کا عمل نہ صرف مختصر مدت میں بلکہ درمیانی مدت میں بھی آگے نہیں بڑھے گا،مزید یہ کہ طوفان الاقصیٰ نے عرب رہنماؤں اور صیہونیت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے میدان میں بہت سی مساواتیں بدل دیں ہیں۔