سچ خبریں: لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کے معاندانہ اقدامات کا سلسلہ جاری ہے،پچھلے ایک سال میں براہ راست دہشت گردی اور سکیورٹی مخالف خطرات کے علاوہ اس حکومت نے پانی کے میدان میں بھی لبنان کو نقصان پہنچایا ہے۔
لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کے معاندانہ اقدامات کا سلسلہ جاری ،گزشتہ سال بھی براہ راست دہشت گردی اور سکیورٹی مخالف خطرات کے علاوہ اس حکومت نے آبی سلامتی کے میدان میں بھی لبنان کو نقصان پہنچایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تل ابیب نے لبنان کے ساتھ آبی سرحدیں کھینچنے کے امریکی منصوبے کو قبول کیا
بیروت کے حکام نے کہا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران جنوبی لبنان کے درجنوں سرحدی قصبے اور دیہات پانی کی شدید قلت کا شکار رہے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج نے زیادہ تر انفراسٹرکچر اور پینے کے پانی کی فراہمی نیز صاف کرنے کی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے۔
گذشتہ موسم خزاں میں، وازانی چشمے کا واٹر پمپنگ اسٹیشن کا منصوبہ، جنوبی لبنان کا سب سے بڑا واٹر پمپنگ اسٹیشن، صیہونی فضائی حملوں کی وجہ سے تباہ ہو گیا،دریائے حسبانی سے پانی پمپ کرنے کا حق 2002 سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان سب سے اہم تنازعات میں سے ایک رہا ہے۔
لبنان کے مقامی عہدیداروں میں سے ایک احمد المحمد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں سے پانی کے منصوبے کے برقی آلات، پمپس اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس کو نقصان پہنچا اور سرحدی علاقے کے متعدد دیہاتوں اور قصبوں میں پانی کی ترسیل بند ہو گئی۔ حکومت نے تنصیبات کی مرمت کے لیے تکنیکی کارکنوں کو علاقے میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی اور توپوں کی بارش سے تنصیبات کی تعمیر نو کو روک دیا ۔
نیز جبل عامل فیڈریشن آف میونسپلٹیز کے سابق سربراہ علی الزین، جنہوں نے ایک بار آبپاشی کے منصوبے کے افتتاح تک اس کی تعمیر کی نگرانی کی، اعلان کیا کہ اس منصوبے سے روزانہ تقریباً 12000 مکعب میٹر پانی پمپ کیا جاتا ہے اور 70 دیہاتوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہےلیکن اس وقت مذکورہ سہولیات کی تباہی کے بعد عملاً سرحدی لائن پر پینے کے پانی کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے، دریں اثنا خطرناک فوجی حالات جنوبی لبنان کے باشندوں کو دریا اور چشموں سے پانی لانے کی اجازت نہیں دیتے۔
لبنان کی سرحد پر صیہونی حکومت کے ہوائی اور توپخانے کے حملوں سے پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوگئی اور سرحدی باشندوں نے بارش کا پانی جمع کرکے اپنے گھروں کی چھتوں سے پلاسٹک کے پائپوں کے ذریعے کھینچ کر محدود پیمانے پر پانی فراہم کیا نیز دیگر علاقوں میں، لبنانی دیہاتیوں نے کنویں کھودنے کا سہارا لیا ہے جس سے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہے۔
لبنان کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق لبنان کے جنوبی سرحدی علاقے کی آبادی تقریباً 133600 افراد پر مشتمل ہے جو 83 شہروں اور دیہاتوں میں بکھرے ہوئے ہیں جبکہ اس وقت اس آبادی میں سے کم از کم نصف کو پینے کے پانی کی فراہمی کے مسائل کا سامنا ہے۔
اردن کو اسرائیل کی پانی کی دھمکی
صرف لبنان ہی نہیں ہے جسے پانی کی حفاظت کے میدان میں اسرائیل کے وحشیانہ اور غیر انسانی اقدامات کا سامنا ہے بلکہ اردن میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، گذشتہ سال میں اسرائیل کے مکروہ اقدامات کی وجہ سے اردن کو کئی بار پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ ایسی صورت حال میں ہے جب اردن میں پانی کا اوسط روزانہ استعمال صرف 70 لیٹر ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کا اوسط معیار تقریباً 150 لیٹر ہے۔
1994 میں اردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد سے صیہونی حکومت نے اردن کو ہر سال 25 سے 50 ملین کیوبک میٹر پانی فراہم کرنے کا عہد کیا ہے لیکن اس نے بارہا اس عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اردن کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے، پانی کا مسئلہ اب اسرائیل اور اردن کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے مرکز میں ہے۔
اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اعلان کیا ہے کہ جب اسرائیل غزہ کے لوگوں کا قتل عام جاری رکھے گا تو وہ صہیونی وزیر کے پاس بیٹھ کر پانی اور بجلی کے معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتے۔
اردن کے جیو پولیٹیکل ماہر عامر سبائلہ کا خیال ہے کہ اسرائیل اور اردن کے درمیان امن اس لیے نازک ہے کیونکہ اردن کو ایک گہرے بحران کا سامنا ہے اور وہ اپنی پانی کی ضروریات کا ایک اہم حصہ اسرائیل سے فراہم کرنے پر مجبور ہے۔
لبنان کے علاوہ اسرائیل کی آبی سلامتی کو بڑھانے کی کوششوں سے شام، فلسطین اور اردن میں بھی مشکل حالات کا سامنا ہے، صیہونی حکومت نے اردن اور شام کے آبی وسائل میں کھلم کھلا مداخلت کی ہے اور دریائے اردن کے پانی کی تقسیم سے متعلق 1994 کے معاہدے کے برعکس اس کا حق نصف کر دیا ہے۔
دریں اثنا، فلسطینی اتھارٹی کے پاس دریائے اردن کے مغربی کنارے کے پہاڑی علاقے کے پانی کا ایک چھوٹا حصہ ہے اور اسے ایک سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔
دوسری جانب گولان کی پہاڑیوں پر قبضے نے شام کو الجلیلہ جھیل کے آبی وسائل سے محروم کر دیا ہے، اس صورت حال میں اسرائیل کے پاس پانی کی حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے تکنیکی ترقی کا ایک مضبوط محرک ہے اور اس نے پانی کو صاف کرنے کے میدان میں بھی ایسے اقدامات کیے ہیں جس کی اسے ضرورت کے پانی کی آسانی سے فراہمی ہو گی۔
ڈی سیلینیشن کی اعلیٰ صلاحیت پر انحصار کرتے ہوئے، اسرائیل سورک اور اشداد میں میٹھے پانی کی پیداوار کے لیے پانچ بڑے کارخانوں کا استعمال کرکے مثالی حالات میں ہے لیکن اس نے لبنان فلسطین اور اردن کے لوگوں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔
اسرائیل دو اہم زیر زمینی پانی پر انحصار کرتا ہے؛ساحلی زیر زمینی پانی اور پہاڑی زیر زمینی پانی، یہ دونوں غزہ اور مغربی کنارے کے نیچے واقع ہیں، اسرائیل کا سطحی پانی بنیادی طور پر شمال اور مشرق میں مرکوز ہے اور دریائے اردن کے ذرائع سے چھیڑ چھاڑ نے اردن اور شام کے لیے صورتحال کو مشکل بنا دیا ہے، اپنی طبعی سرحدوں میں اضافہ کیے بغیر، اسرائیل نے اپنے گھریلو آبی وسائل کو وسعت دی ہے اور پانی پر بین الاقوامی تنازعات کے خطرے کو کم کر دیا ہے،نیز، تل ابیب نے نیشنل واٹر کیریئر کے نام سے ایک پروجیکٹ بنایا ہے، جس میں نہریں، پائپ لائنیں اور پمپنگ اسٹیشن شامل ہیں اور بحیرہ جلیلہ کے پانی کو شمالی پانی سے مالا مال علاقوں سے وسطی اور جنوبی حصوں میں منتقل کرتا ہے۔
شام کے جنوب مغربی علاقے میں واقع گولان کی پہاڑیوں پر 1967 سے صیہونی حکومت کا قبضہ ہے، گولان کی پہاڑیاں اسرائیل اور شام کے درمیان واقع ایک اسٹریٹجک سطح مرتفع ہے جہاں سے جنوبی لبنان نظر آتا ہے، یہ علاقہ دمشق سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
گولان ہائٹس کی اونچائی سطح سمندر سے 1000 اور 1200 میٹر کے درمیان ہے، فوجی نقطہ نظر سے یہ علاقہ اسٹریٹجک بلندی تصور کیا جاتا ہے، گولان پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا اور اقوام متحدہ کی قرارداد 242 کے اجرا کے باوجود صیہونی حکومت وہاں سے نہیں نکلی۔
مزید پڑھیں: صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینی آبی اور زرعی وسائل کی لوٹ مار
گولان میں اسرائیل کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ خطہ ہمسایہ علاقوں کے لیے آبی وسائل کا سرچشمہ اور اس خطے کی زمینوں کے لیے بہت اہم ذریعہ ہے اور یہ سطحی اور زیر زمین پانی کے وسائل کے لحاظ سے بہت امیر ہے۔
صیہونی حکومت کے انسان دشمن سیاسی نظریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت نے آبی جنگ کا آغاز نصف صدی قبل کیا تھا اور آج جب مشرق وسطیٰ میں آبی جنگ بتدریج ایک ممکنہ مسئلہ بن رہی ہے تو اسرائیل گولان کے آبی وسائل کو ترک نہیں کرے گا۔
مزید یہ کہ اگست 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں صیہونیوں کے پہلے اجلاس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پانی کے بغیر صیہونی حکومت کا قیام ممکن نہیں ہے۔