سچ خبریں:صہیونی مظاہرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے اتحادیوں کا مقصد مذہبی عدالتوں کو دیوانی عدالتوں کے برابر درجہ دینا اور یہودی مذہبی قانون پر مبنی ایک متوازی قانونی نظام بنانا ہے۔
تقریباً 13 ہفتوں سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کنیسٹ میں عدالتی اصلاحات کی حتمی قانونی منظوری کو روکنے اور مخالفت کے اظہار کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، وہ قانون جسے نیتن یاہو اور ان کی اتحادی کابینہ نے وزیر اعظم کے طور پر نیتن یاہو کی نئی مدت کے آغاز کے 6 دن بعد پیش کیا اور اب تک اس قانون کے بننے کے لیے ابتدائی ووٹنگ کے دو دور اور پارلیمنٹ میں صرف حتمی ووٹنگ کی ضرورت ہے۔
عدالتی اصلاحات کا قانون کیا ہے؟
یہ احتجاج اس قانون کے خلاف ہے جو سپریم جوڈیشل کورٹ کے اختیارات کو کم کرکے وزیر انصاف کو منتقل کرتا ہے، اس وجہ سے نیتن یاہو کی کاروائی عدالتی بغاوت کے نام سے مشہور ہو گئی ہے، ایک بغاوت جس سے فی الحال نیتن یاہو نے ایک قدم پیچھے ہٹ کر پارلیمنٹ میں اس قانون کے حتمی ووٹ کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے،یہ قانون عدالتی نظام کے ذریعے کنیسٹ کی منظوریوں پر نظرثانی سے روکتا ہے تاکہ کنیسٹ عدلیہ کی رائے کے بغیر کسی بھی قانون کی منظوری دے سکے، اس قانون کی دیگر اہم تبدیلیوں میں سے ایک جوڈیشل کونسل کی مداخلت کے بغیر ججوں کی تقرری حکومت کے اختیار میں ہے نیز یہ قانون سپریم کورٹ کو وزارتوں کے قانونی مشیروں کی حیثیت کو اس وزارت کے ماتحت ملازمین میں تبدیل کرنے کے معاملے میں مداخلت کرنے سے روکے گا، وہ اختیار اب تک نیتن یاہو کی کابینہ میں کچھ تقرریوں کو ویٹو کرنے کا باعث بنا۔
آئین کا نہ ہونا یا یہودی قانون کی حکمرانی؟
یہ قانون ایگزیکٹو اور قانون ساز دونوں شاخوں کی نگرانی کے معاملے میں عدالتی نظام کی طاقت کو کمزور کر دے گا اور پورا اختیار ایگزیکٹو برانچ کے ہاتھ میں خاص طور پر قانون ساز شاخ کے حکمران اتحاد کے ہاتھ میں چلا جائے گا، طاقت کی تقسیم میں یہ اس تبدیلی صیہونی حکومت کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے،صیہونی حکومت کے غیر جمہوری سیاسی ڈھانچے کی بنیادی وجہ آئین کا فقدان ہے،اس حکومت کی جعلی سیاسی حکمرانی ساختی لحاظ سے عجیب ترین سیاسی نظاموں میں سے ایک ہے،اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آئین کا نہ ہونا، 1948 میں صیہونی حکومت کے قیام کے اعلان کے بعد اس حکومت کے آئین کی منظوری کے حوالے سے مقبوضہ علاقوں کے اندر وسیع اختلافات پائے گئے،اس مسئلے کی بنیادی وجہ تارکین وطن یہودیوں اور صہیونی رہنماؤں کی فلسطینی سرزمین پر قبضے اور اسرائیل کی تشکیل کے مقاصد کے بارے میں فہم میں دیانت کا فقدان تھا۔
آئین بنانے کے مخالفین کے دلائل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ ایک گروہ جیسا کہ اگودات اسرائیل کی انتہا پسند جماعت کا خیال تھا کہ یہودی شریعت اسرائیل کا مستقل آئین ہے ۔
2۔ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ آئین ان کی سیاسی تحریک اور مستقبل کے قبضے کے منصوبوں کے خلاف رکاوٹ پیدا کرتا ہے جس کے لیے مثال کے طور پر ہم بن گوئرین کے مشہور بیان کا حوالہ دے سکتے ہیں، جس کا خیال تھا کہ بقیہ دنیا کے یہودیوں کے ہجرت کرنے اور اسرائیل کی حتمی حیثیت کے تعین سے پہلے آئین نافذ نہیں کیا جانا چاہیے، آئین کی کمی نے ایک بار پھر انتہا پسندوں ، صیہونیوں اور آرتھوڈوکس یہودیوں کے لیے یہودی محور مبنی قوانین منظور کرنے کے لیے حالات کو کھلا چھوڑ دیا ہے، تاہم سپریم جوڈیشل کورٹ جو کہ بائیں بازو کا ادارہ ہے، اس کاروائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے نیتن یاہو کی بنیاد پرست اور دائیں بازو کی مذہبی کابینہ کا پہلا قدم اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے نیز 2018 میں یہودی قومی ریاست کے قانون کی منظوری تل ابیب کے دائیں بازو کے اسپیکٹرم کے لیے ” یہودیت جمہوریت پر مقدم ہے” کے ان کے نعرے کو قانونی طور پر پورا کرنے کے لیے ایک فتح تھی، یہ قانون انتہائی نسل پرستانہ اور جمہوریت مخالف تھا،اعداد و شمار کے مطابق حالیہ اسرائیلی کنیسٹ انتخابات میں پہلی بار مذہبی اور انتہاپسند صہیونیوں کے ووٹ سیکولر (بائیں اور دائیں دونوں) کے مقابلے میں زیادہ ہوئے ہیں، اس کی اسرائیل ٹائمز کے ایڈیٹر اور بانی ڈیوڈ ہورووٹز کے عنوان سے شاید بہترین تشریح مل سکتی ہے، جنہوں نے لکھا: "جمہوری اسرائیل” پر "یہودی اسرائیل” کی برتری۔
عدالتی اصلاحات پر عملدرآمد کے نتائج
نیتن یاہو کے مجوزہ منصوبے کی منظوری سے کچھ ایسے قوانین کی منظوری کی راہ ہموار ہو جائے گی جن کے بارے میں یہودیوں کا خیال ہے کہ مقبوضہ علاقوں کا سرکاری قانون بننا چاہیے (جیسے سنیچر کو چھٹی، سزائے موت وغیرہ) صیہونی عدالتی اصلاحات کے قانون کے پاس ہونے کے نتائج کے بارے میں اکانومسٹ کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ قانونی اشرافیہ سے نفرت کرتے ہیں، اس لیے وہ ایک قابل رحم حل مسلط کر رہے ہیں،اس کی اصلاحات اسرائیل کی پارلیمنٹ کنیسٹ کو ججوں کی تقرری اور بائیں بازو کے زیر کنٹرول سپریم کورٹ کو مؤثر طریقے سے سائیڈ لائن کرنے کی اجازت دے گی، لامحدود اختیارات صرف اسرائیلی پارلیمنٹ کو دے گی، جہاں نیتن یاہو کے اتحاد کو اکثریت حاصل ہے، یہ جدوجہد اسرائیل کے تشخص کی جدوجہد کا حصہ ہے جو پولرائزڈ ہو چکی ہے، نیتن یاہو کی پاپولسٹ اور اشرافیہ مخالف پالیسیوں، عدم مساوات اور مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی ترقی سے ایک انتہائی دائیں بازو پروان چڑھا ہے،اسرائیل میں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے؛وہ آبادی کا 13 فیصد ہیں جن کے بہت سے لوگ فوج میں کام کرنے یا خدمت کرنے کے بجائے تورات پڑھتے ہیں، گزشتہ سال کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو اور آرتھوڈوکس جماعتوں نے مل کر ایک چوتھائی نشستیں حاصل کی تھیں جس کے بعد انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ نیتن یاہو کی مرکزی بائیں بازو اور دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹیاں مشترکہ حکومت بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کے ساتھ اتحاد قائم کیا البتہ اعتدال پسند اسرائیلی اس اتحاد سے ناراض ہیں کہ وہ اپنی لبرل جڑوں کو دھوکہ دے رہا ہے اور جنگ چھیڑ رہا ہے جبکہ یہ لوگ دولت پیدا کر رہے ہیں، ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
عدالتی اصلاحات کے بل کی منظوری یقینی طور پر اسرائیل کے عرب شہریوں اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو شدید خطرات سے دوچار کرے گی اس لیے کہ مغربی کنارے میں سپریم کورٹ نے صیہونی بستیوں کی تعمیر کو کسی حد تک محدود کر دیا ہے ،اگر اسرائیل میں اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا گیا تو امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے اسرائیلی عرب مزید مایوس ہو جائیں گے، ایسے حالات میں جبکہ اسرائیلی وزراء عرب مخالف نسل پرستی کی کھل کر حمایت کرتے ہیں عدالت کو کمزور کرنا تنازعہ کا باعث بن سکتا ہے۔
عدالت مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھ میں
ایک سنگین نتیجہ جس کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں کے سیکولر اور غیر مذہبی اسپیکٹرم کو کئی ہفتوں تک سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا، وہ ہے عدالتوں میں یہودی قوانین کی منظوری کا راستہ کھلنا۔ اس وقت صہیونیوں کی ایک بڑی تعداد یہودیوں کے بعض احکام پر اعتراض کرتی ہے لیکن دوسری طرف مذہبی انتہا پسندوں کی ایک اور رینج اس ریاست کی انتظامیہ میں یہودی قوانین کا حصہ بڑھانا چاہتی ہے،ہفتہ کو چھٹی کرنے کے قوانین سے لے کر سزائے موت تک یہودی روایت پر مبنی قانون اور سزائیں نافذ کرنا چاہتی ہے جس کے لیے ہم اسرائیلی خواتین کی عدالتوں سے طلاق کی منظوری حاصل کرنے کی ناکام کوششوں کا ذکر کر سکتے ہیں جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے،اسرائیل میں یہ ایک عام مسئلہ ہے کیونکہ ہر جوڑا جو طلاق لینا چاہتا ہے اسے یہودی عدالتوں کی رکاوٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہودی مذہبی عدالتیں اور اس پر حکومت کرنے والا ڈھانچہ ایک تمام مردانہ نظام ہے جہاں صرف مرد کام کر سکتے ہیں یا گواہی دے سکتے ہیں ، مذہبی عدالتوں کے جج ہریدی مرد ہیں، جن کا زیادہ تر دیگر خواتین سے روزانہ رابطہ نہیں ہوتا، سوائے ان کے خاندان کی خواتین کے، اور وہ جو قانونی نظام چلاتے ہیں وہ مذہبی قوانین کے مطابق ان کی حیثیت اور معیار کا تعین کرنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک خواتین کا طرز عمل اور زندگی 500 سال پہلے کے معیار کے مطابق ہے۔
نتیجہ
مظاہرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کی اتحادی کابینہ کے اتحادیوں کا بنیادی ہدف مذہبی عدالتوں کو سول عدالتوں کے برابر درجہ دینا اور یہودی مذہبی قانون پر مبنی ایک علیحدہ اور متوازی قانونی نظام بنانا ہے نیز اس ہدف میں یہودی مذہبی عدالتوں کو تمام دیوانی معاملات میں بہت زیادہ اور بے مثال طاقت حاصل ہوگی جو فی الحال صرف سول عدالتی نظام کے دائرہ اختیار میں ہے۔