سچ خبریں: صیہونی ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں نے اپنی رپورٹوں میں تاکید کی ہے کہ تل ابیب اور واشنگٹن کے اہداف کی خواہش کے باوجود ریاض کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے بنیامین نیتن یاہوکی کابینہ کو اس سمت میں بہت سے مسائل درپیش ہیں جن میں وہ سعودی حکام کو مطمئن نہیں کر سکے گی۔
عربی 21 تجزیاتی نیوز سائٹ نے صہیونی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے کی شرائط اور امکان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایسی صورت حال میں جبکہ بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ کی جانب سے مہینوں سے سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ سیاسی اقدام کے بارے میں رپورٹیں آرہی ہیں لیکن میڈیا کے حلقے اور سیاسی مراکز یہ توقع نہیں رکھتے کہ اس بار ریاض کے ساتھ معمول پر آنے کا ہدف حاصل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: یورینیم کی افزودگی کے لیے تل ابیب سے ریاض تک گرین لائٹ
اس رپورٹ میں تل ابیب کی کابینہ کے حکام سعودی عرب کے ساتھ سمجھوتے کے لیے کی جانے والی حالیہ کوششوں کی 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مغرب کے ساتھ امن معاہدے کی پہل کے ساتھ مماثلت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن دوسرے تجزیوں سے ریاض کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کی کامیابی کی امید نہیں ہے اگرچہ مکہ اور مدینہ جیسے اسلامی مقدس مقامات کے ساتھ ساتھ اس ملک کی بڑی اقتصادی صلاحیت اور مذہبی اہمیت کے پیش نظر، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا معمول پر آنا مشرق وسطیٰ میں ایک اہم پیشرفت ہوگی۔
صیہونی شرق شناس یارون فریڈمین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اسرائیل کے ساتھ مستقبل کے معاہدے کے لیے موزوں ترین آپشن ہو سکتے ہیں، اگرچہ اس معاہدے کے راستے میں بہت ساری رکاوٹیں موجود ہیں جن میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ ہم 2002 سے اس صورتحال سے دوچار ہیں جب سعودی عرب نے امن اقدام کو عرب لیگ کی میز پر رکھا اور 1967 کی سرحدوں بشمول گولان کی پہاڑیوں، مغربی کنارے، قدس اورغزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا اور بدلے میں اس نے عہد کیا کہ عرب لیگ کے تمام ارکان اسرائیل کے ساتھ مکمل امن پر دستخط کریں جبکہ سعودی عرب پر یہ بات بالکل واضح تھی کہ دوسرے انتفاضہ میں فلسطینیوں کے خلاف جدوجہد کے عروج پر ایریل شیرون کی حکومت اس تجویز پر غور نہیں کرے گی۔
صہیونی اخبار یدیعوت احرونٹ کی طرف سے شائع کردہ اور عربی21 نیوز ویب سائٹ کے ذریعہ ترجمہ کیے جانے والے ایک کالم میں انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی ہم ایسے ہی حالات میں ہیں کیونکہ سعودی عرب فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت،سویلین جوہری پروگرام اور امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی اتحاد کا مطالبہ کرتا ہے لیکن کیا تل ابیب اسرائیل کے قیام کے بعد سے سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت یعن ینیتن یاہو کی کابینہ کے کے باوجد فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے؟ خاص طور پر چونکہ اسموٹریچ اور بین گوئر کی حکومت عرب صیہونی تنازعات کے خاتمے کے بدلے میں اسرائیل کی عظیم سرزمین کے خواب کو بھی ترک نہیں کرتی! سعودی عرب کے رہنما اسرائیل کے حالات سے بخوبی واقف ہیں لیکن وہ جو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں طویل بحران کے بعد امریکہ تک پہنچنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے 2002 کی طرح ایک تجویز پیش کی جس کا واشنگٹن نے خیرمقدم کیا، لیکن تل ابیب میں اسے مکمل طور پر مسترد کر ،کیونکہ جن ممالک نے نارملائزیشن کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں وہاں بھی اس عمل کی عوامی مخالفت بہت زیادہ ہے،یہ درست ہے کہ ہمیں متحدہ عرب امارات میں شدید دباؤ کی وجہ سے ایسا محسوس نہیں ہوتا لیکن شارجہ اس کی سات امارات میں سے ایک ہے جس کے اعلیٰ عہدیداروں نے 2020 کے اوائل میں اس معاہدے کی مخالفت کا اعلان کرنے کی ہمت کی جبکہ بحرین میں، متحدہ عرب امارات کے برعکس، سمجھوتے کے خلاف سوشل میڈیا میں احتجاجی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں نیز مراکش میں جسٹس اینڈ چیریٹی گروپ کا بھی یہی حال ہے، جو معمول پر آنے کی سخت مخالفت ظاہر کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنا کیوں نہیں چاہتا؟
اس صہیونی تجزیہ کار نے وضاحت کی کہ سمجھوتے کے عمل میں شامل ممالک مغربی کنارے کے علاقوں (B اور C) کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کے بارے میں بھی فکر مند ہیں اور جب بھی اسرائیل کا دائیں بازو مزید بستیوں کی تعمیر شروع کرتا ہے تو انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
مارچ میں، متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے فوجی نظام کی خریداری بند کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا نیز متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مسجد اقصیٰ پر بن گوئر کے حملے کے لیے موجودہ حکومت کی مذمت کی، بحرین نے بھی حال ہی میں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کا دورہ ملتوی کر دیا جبکہ اسی مہینے میں صیہونی وزیر ٹرانسپورٹ میری ریگو نے دبئی سے واپس آنے کے بعد اعلان کیا کہ چونکہ انہیں یہ جگہ پسند نہیں آئی اس لیے وہ اب دوبارہ یہاں نہیں آئیں گے۔
صیہونی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور جیوش پیپلز پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے رکن ایوی گل ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے تل ابیب کے اہداف کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے معاہدے کو فروغ دینے سے تین اہداف کے ساتھ ایک جامع معاہدے کے لیے ایک مناسب زمینہ فراہم ہوتا ہے:
1۔ عرب اور اسلامی دنیا کے ساتھ یہودیوں کے تعلقات کی مکمل تبدیلی، اسرائیل کو نسل پرست اور دو قومی ریاست کی حقیقت کی طرف بڑھنے سے روکنا اور سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ، یہ معاہدہ ایک تاریخی سنگ میل ہے کیونکہ سعودی عرب ایک تو تیل کی طاقت ہے اور دوسرے اس ملک میں اسلام کے دو مقدس مقامات ہیں،اس کا مطلب اسرائیل کو ایک ایسے خطے میں قبول کرنا ہے جہاں کے بیشتر ممالک اس کے وجود سے انکاری ہوں،یہ معاہدہ نہ صرف عرب بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک بالخصوص ملائیشیا اور انڈونیشیا کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کی ترغیب دلا سکتا ہے۔
وہ سعودی عرب کے صیہونی حکومت کے ساتھ معمول پر آنے کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایران کے ساتھ معاہدے کے باوجود سعودی عرب اس سے خوفزدہ ہے اور امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ چاہتا ہے، یہ اسرائیل کے لیے اچھا ہے کیونکہ اس سے ایران کو تنہا اور کمزور کرنے میں مدد ملتی ہے اور اسٹریٹجک خلا کو کم کرنے کے لیے خطے میں کمزور امریکی مداخلت کا عمل رک جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی حکام جوہری پراجیکٹ شروع کرنے کے لیے ،دوسری صورت میں روس، چین یا پاکستان ریاض کے مطالبات کو پورا کریں گے،اسرائیل کو سعودی عرب کی جانب سے خود کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کی درخواستوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان پر امریکہ کا کنٹرول ہوگا۔