سچ خبریں: صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع النصیرات کیمپ پر وحشیانہ حملے کے دوران 4 صیہونی قیدیوں کی رہائی کے بعد جشن منایا۔
گزشتہ رات، بینی گینٹز نے جنگی عمل کو آگے بڑھانے میں ناکامی کا اعتراف کرنے کے بعد جنگی کابینہ سے مستعفی ہونے کا باضابطہ اعلان کیا اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا۔
بینی گینٹز کے ان الفاظ نے نیتن یاہو کو غصہ دلایا اور انہوں نے ان الفاظ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس وقت اپنی بقا کی جنگ میں ہے اور اب یہ وقت انتخابات اور انتخابی مہم پر بات کرنے کا نہیں ہے۔
نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہا پسند وزراء، جن میں وزیر خزانہ بیزلیل سمٹریچ اور داخلی سلامتی کے وزیر ایٹمار بین گوور شامل ہیں، نے بھی بینی گانٹز پر حملہ کیا۔ دوسری جانب نیتن یاہو کے اپوزیشن کیمپ نے بینی گانٹز کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے نیتن یاہو کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بینی گینٹز کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد بینی گینٹز کی پارٹی کے دو وزراء گیڈی آئزن کوٹ اور ہیلی ٹروپر نے جو جنگی کابینہ میں ان کے ساتھ تھے، نے بھی الگ الگ خطوط میں اپنے استعفوں کا اعلان کیا۔
صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ کے ارکان کے مستعفی ہونے کے اعلان کے فوراً بعد صیہونی فوج کے غزہ ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل ایوی روزن فیلڈ نے بھی جنگ کے اعلیٰ کمانڈروں کے نام ایک خط میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اس بات کا اعتراف کیا۔
ڈومینوور کے ان استعفوں نے، جو بہت کم وقت میں کیے گئے تھے، 4 صہیونی قیدیوں کی رہائی کے بعد نیتن یاہو کی خوشی کو توڑ دیا اور انہیں ایک بار پھر اس عظیم بحران کی یاد دلا دی جس میں وہ ہیں۔
نیتن یاہو کا بحران اور صہیونی معاشرے کی تقسیم
اسی تناظر میں اردنی مصنف اور سیاسی تجزیہ نگار حازم ایاد نے غزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت کی ریاست پر ان استعفوں کے نتائج کے بارے میں ایک مضمون میں کہا ہے کہ یہ استعفے نیتن یاہو کے بحران کو مزید گہرا اور تیز تر کر دیں گے۔ اسرائیلی معاشرے میں تقسیم نیز اس واقعے کے اندرونی نتائج صرف مقبوضہ فلسطین تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ امریکا تک بھی پہنچیں گے اور اس ملک کے صدارتی انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
اس مضمون کے مطابق، جنگ کے وسط میں صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ کے تین سینیئر اراکین کا استعفیٰ اور جب کہ اسرائیل نے کوئی ہدف حاصل نہیں کیا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی معاشرے اور اس کی پالیسیوں میں تقسیم اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ اور وحشیانہ قتل عام کے بعد 4 صہیونی اسیران کی رہائی کے ساتھ فتح کی غلط تصویر پیش کرنے کی کوشش بھی ان اختلافات اور خلیج کو چھپا نہیں سکتی۔
اس نوٹ کے مصنف نے کہا کہ یہ استعفے ثابت کرتے ہیں کہ نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ کو عملی طور پر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہے اور صیہونیوں کے درمیان اندرونی کشمکش باقی تمام چیزوں پر قابو پاتی ہے۔ دوسری جانب ہم نے گزشتہ چند دنوں کے دوران مقبوضہ فلسطین کی گلیوں میں نیتن یاہو کے خلاف زبردست مظاہرے دیکھے۔
اس اردنی سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ میں استعفوں کے براہ راست نتائج نیتن یاہو کی کابینہ کی پوزیشن اور امریکہ اور یورپ میں اس کی قانونی حیثیت کو کمزور کر دیں گے۔ کیونکہ جنگی کابینہ میں اپوزیشن لیڈروں کی عدم موجودگی نیتن یاہو کی پوزیشن کو کمزور کرتی ہے۔ یہ واقعہ نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ چلانے، بین الاقوامی عدالت انصاف میں ان پر مقدمہ چلانے اور فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے جرم میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کا باعث بنے گا۔
صہیونی جنگی کابینہ میں استعفوں کے اسٹریٹجک نتائج
حازم ایاد نے کہا کہ ان استعفوں کے نتائج کا براہ راست اثر اسرائیلی کابینہ کی حکمت عملی پر پڑتا ہے۔ کیونکہ صیہونی حکومت غزہ کے عوام اور مزاحمت سے نمٹنے کے لیے سیاسی اور عسکری میدان میں کوئی مربوط حکمت عملی نہیں بنا سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ امریکہ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے درمیان اختلافات کو بھی بڑھا دیتا ہے کیونکہ امریکی صدر جو بائیڈن بینی گینٹز کی حمایت کرتے ہیں اور گینٹز بھی امریکی صدارتی انتخابات میں بائیڈن کی حمایت کرتے ہیں۔ ادھر نیتن یاہو کو ریپبلکن پارٹی کی حمایت حاصل ہے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی انتخابات میں اپنا پسندیدہ امیدوار مانتے ہیں۔
اس اردنی تجزیہ نگار کے مطابق یہ تمام حالات صیہونی حکومت کے سیاسی اور فوجی حکام کے ساتھ ساتھ اس حکومت کے معاشرے کے درمیان خلیج پہلے سے زیادہ گہری ہونے کا سبب بن رہے ہیں اور بالآخر صیہونی کسی واضح حکمت عملی تک پہنچنے سے مزید دور ہو گئے ہیں۔ جنگ کے لیے
اس بنا پر وہ مزاحمت جس نے جنگ کے پہلے دن سے ہی متحد طریقے سے کام کیا ہے اور اس کے تمام گروہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا کر جنگ میں پہل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اسرائیلی اداروں کے ساتھ ساتھ امریکہ کے درمیان تقسیم جو جنگ میں اس حکومت کا اصل حامی ہے، ظاہر کرتا ہے کہ ان کے پاس جنگ یا اگلے مرحلے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
شمالی محاذ پر نیتن یاہو کے حساب کتاب میں گڑبڑ ہے۔
عربی زبان کے ایک اور تجزیہ نگار ابراہیم المدعون کا بھی خیال ہے کہ صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ سے بنی گانٹز اور ان کی جماعت کے ارکان کے استعفیٰ مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ میں اسرائیل کی صورت حال کو پہلے سے بھی زیادہ انتشار کا شکار کر دے گا۔ جہاں نیتن یاہو نے چند روز قبل شمالی مقبوضہ فلسطین میں لبنان کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی تھی، وہیں اس سے جنگی کابینہ کے سینئر ارکان کی رخصتی نے نیتن یاہو کے تمام حسابات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس سیاسی ماہر کے مطابق، صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ سے بینی گینٹز کے استعفیٰ کے نتائج کے علاوہ، ہمیں اس کابینہ سے Gadi Eisenkot کے مستعفی ہونے کے نتائج پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے آئزن کوٹ کو بینی گینٹز سے زیادہ جنگی امور کا تجربہ ہے۔ آئزن کوٹ نے ہمیشہ جنگ کے پردے کے پیچھے ایک انجینئر کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا استعفیٰ عسکری نقطہ نظر سے بہت اہم ہے اور اس کا اثر کابینہ اور اسرائیلی فوج کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔ جنگ کی اچھی طرح وضاحت کی جائے گی۔