سچ خبریں:برطانوی اخبار ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے انتباہ کے باوجود سعودی عرب میں جدید غلامی عام چکی ہے۔
برطانوی اخبار ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ سعودی عرب میں خرید و فروخت کے لیے سب سے زیادہ مقبول الیکٹرانک ایپلی کیشن میں 23 سعودی ریال روزانہ سے کم کے عوض بڑی تعداد میں غیر ملکی کارکنوں کی اسمگلنگ دیکھنے کو مل رہی ہے، برطانوی اخبار نے لکھا کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی آن لائن مارکیٹ سمجھی جانے والی الحراج ایپلی کیشن میں روزانہ سعودی شہریوں کی جانب سے گھریلو کام کی خدمات کی فروخت اور کرائے کے لیے شائع ہونے والے درجنوں اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں نوکرانیاں، نرسیں، ڈرائیور اور باغبان وغیرہ شامل ہیں۔
ایک بھیس بدلی ہوئی بلیک مارکیٹ میں سعودی شہریوں کی طرف سے روزانہ درجنوں اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں جو تارکین وطن کارکنوں کو نوکر، کلینر، آیا اور ڈرائیور کے طور پر خریدنے یا کرایہ پر لینے کا اشتہار دیتے ہیں جبکہ یہاں آجر تارکین وطن کارکنوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیتے ہیں، جیسا کہ سعودی شہری نورا نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنی ملازمہ کا پاسپورٹ ایک سال سے زائد عرصے تک محفوظ جگہ پر رکھا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق کارکنوں کی شناختی دستاویزات رکھنا بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو جبری مشقت اور کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی نشاندہی کرتا ہے، نوکر بیچنے والوں نے زور دے کر کہا کہ وہ اپنے کارکنوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیتے ہیں اور دو دیگر نے بھی کہا کہ اگر ان کے نوکر اپنے پاسپورٹ مانگتے ہیں تو انہیں جسمانی سزا دی جاتی ہے، درجنوں سعودیوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ نوکروں کو دن میں کم از کم £5 کے حساب سے چوبیس گھنٹے کام کرنا چاہیے۔ دوسری جانب کچھ سعودیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے نوکروں کو زیادہ منافع کے لیے نیلام کیا کیونکہ وہ بچوں کے ساتھ برتاؤ سے واقف نہیں تھے یا عربی یا انگریزی نہیں بول سکتے تھے،جہاں تک نوکروں کی قیمتوں کا تعلق ہے وہ ان نسلی پس منظر کے مطابق مختلف ہوتی ہیں، جیسا کہ فلپائنی نوکروں کو تیزی سے اور سب سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں غیر ملکی ورکرز کو کسی نہ کسی طرح ان کے آجر کی طرف سے سپانسر کیا جاتا ہے اس طرح سے کہ سعودی شہریوں کو اس کارکن کا حق حاصل ہے ،وہ اس کے ساتھ معاہدے کی قسم اور اس کے ویزے کی شرائط کا تعین کرتے ہیں اگرچہ 2021 میں، سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب کے 2030 کے اسٹریٹجک وژن کے فریم ورک میں نظام میں اصلاحات کرے گی اور کارکنوں کے حقوق کی ضمانت دے گی جس میں بینک اکاؤنٹ کھولنے، ملازمتیں تبدیل کرنے اور بغیر اجازت ملک چھوڑنے کی اجازت شامل ہوگی لیکن ٹائمز اخبار کے مطابق یہ حقوق گیس اور تیل سمیت نجی شعبے میں کام کرنے والوں کو ہی حاصل ہیں۔
اخبار کے مطابق کچھ انسانی اسمگلروں نے اپنے کارکنوں کو سزا دینے کے لیے مارا پیٹا اور ان سے صرف 6 ڈالرز میں 24 گھنٹے کام کرایا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ لاکھوں ایتھوپیا کے تارکین وطن کو سعودی حکام نے ظالمانہ اور غیر انسانی حالات میں من مانی طور پر حراست میں لینے کے بعد زبردستی واپس بھیج دیا ہے،تنظیم نے سعودی حکام سے 2021 اور 2022 کے درمیان ایتھوپیا کے تارکین وطن کی حراست میں ہونے والے تشدد کے ساتھ ساتھ کم از کم 10 ہلاکتوں کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ اگرچہ 1964 سے سعودی عرب میں غلامی پر سرکاری طور پر پابندی عائد ہے لیکن اس وقت اس ملک میں بہت سے غیر ملکی کارکن غلاموں کی طرح کے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دستاویزی رپورٹس باقاعدگی سے شائع ہوتی رہتی ہیں کہ اس ملک میں غیر ملکی کارکنوں کو زیادہ کام کرنے، تھکن، تشدد یہاں تک کہ پانی اور خوراک سے بھی محروم ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سعودی عرب کے موجودہ حالات کی وجہ سے برسوں سے غیر ملکی کارکن بدترین زندگی گزار رہے ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں غیر ملکی ورکرز بالخصوص خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جن میں سے چند ایک ہی اس ملک میں اچھی نوکریاں اور عہدہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تارکین وطن میں سے اکثر غریب ممالک جیسے سری لنکا، فلپائن، نیپال، پاکستان اور موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے محنت کش اپنے ملکوں میں پائی جانے والی غربت اور بدحالی سے بچنے نیز اپنے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے واحد مقصد کے ساتھ سعودی عرب آتے ہیں اور اپنے سعودی آقاؤں کے لیے قلیل رقم کے عوض چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے سعودی آجر انھیں یہ معمولی رقم بھی وقت پر اور پوری ادا کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور اگر ان کی طرف سے اس کی درخواست کی جائے تو ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے پاس سعودی عرب میں اپنے آجروں کے جبر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ اگست 2019 میں، ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ سعودی حکام کارکنوں کو بغیر کسی خلاف ورزی کے سزا دیتے ہیں اور ان کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کرتے نیز انہیں بین الاقوامی قوانین اور چارٹر کی بنیاد پر ان کے ضمانت شدہ حقوق نہیں دیتے جبکہ مزدوروں کے حقوق کے بین الاقوامی چارٹر نے اجرت، اچھے رویے اور غیر قانونی کارروائی کی صورت میں عدالتی نظام سے رجوع کرنے اور وکیل حاصل کرنے کے حق کی ضمانت دی ہے۔