سچ خبریں:گذشتہ روز ترکی کے وزیر داخلہ نے شام کے علاقے عفرین کا سفر کیا جبکہ اردگان نے گذشتہ روز کابل ایئرپورٹ کے قبضے کا خیرمقدم کیا ، درایں اثنا عراق اور ترکی کے درمیان سرحدی علاقوں پر اب بھی ترکی کی نقل وحرکت جاری ہے۔
جب کہ شمال مغربی شام میں ترکوں کی موجودگی تقریبا معمول بن چکی ہے ، اس خطے میں ترک کاری کی پالیسیاں سختی سے چل رہی ہیں،اس علاقہ میں ترکی کی ٹیلی مواصلات کمپنیوں کی حکمرانی سے لے کر نصابی کتب کو تبدیل کرنا ، اسپتال ، سڑکیں وغیرہ قائم کرنا ، سبھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ ترک کردوں کے خطرے کو بہانہ بنا کر شام میں موجودرہنے پر اصرار کرتے ہیں جس کا مقصد اس ملک پرہمیشگی جغرافیائی تسلط قائم کرنا ہے البتہ یہ پالیسی بہت سال پہلے ترکوں نے شام کے لیوا اسکندرون کے معاملے میں تجربہ کی تھی جو یقینا وہ کامیاب رہی تھی۔
کل ترک وزیر داخلہ کا بلا کسی خوف و پریشانی کےشام کے شمال مغربی خطے کا دورہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ترکی باضابطہ طور پر اس خطے کو ترکی کا ایک حصہ سمجھتا ہے جبکہ ترک اپنی صوابدید پر شامی عوام پر کسی بھی طرح کےظلم سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔
حسکہ میں ایک لاکھ سے زیادہ آبادی پر پانی بند کرنا شمالی شام میں ترکی کی اس پالیسی کی واضح مثال ہے، ترکوں کے مطابق اس خطے کو ترک شہری ہونا چاہئے چاہیے وہ شامی عوام کی رضامندی سے ہو یا زبردستی،واضح رہے کہ یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گرد شام کے کچھ حصوں میں ابھی بھی شامی حکومت اور فوج کے ساتھ پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔
شمالی شام میں جاری ترک کاری کی پالیسی ، شمالی عراق میں بھی مختلف طریقوں سے چلائی جارہی ہے، اس خطے میں ، ترکوں نے پی کے کے سے لاحق خطرات کے بہانے عراق میں دو بڑے پیمانے پر کاروائیاں کیں ، اور بار بار سرحدی علاقوں میں فضائی حملے کیے ہیں، ان جارحیتوں میں ترکوں کا جوازصدام کے زمانے میں ان کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ہےجس کے مطابق ترکی عراق کے اندر اپنے ملک کے خطرناک عوامل کا پیچھا کر سکتاجبکہ کئی عشروں بعدبھی عراقی حکام نے معاہدے میں تبدیلی کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی عراق میں بھی شام کی طرح ، 30 سے 50 کلومیٹر کے درمیان مشترکہ سرحد کے اندر اپنے آپ کو منظم کرنا چاہتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس خطے سے تیل خریدنے کے لئے 50 سالہ معاہدے کے ساتھ عراقی کردستان نے ان مظالم کے مقابلہ میں عملی طور پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔
افغانستان میں اس حقیقت کے باوجود کہ طالبان نے کابل ایئر پورٹ کو ترکوں کے حوالے کرنے کواس اقدام کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نمائندگی کا لقب دیتے ہئے اسے جارحیت قرار دیا ہے اور اس سے لڑنے کا وعدہ کیا ہے۔
اگرچہ خطے کے مختلف حصوں میں ترکوں کی سنجیدہ موجودگی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنے ملک کی سرحدوں کو وسعت دینے کی خواہش آہستہ آہستہ ایک نئے مرحلےمیں داخل ہورہی ہے جس سے آگاہی نہ ہونا بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنے کے لئے کافی ہے کہ ترکوں کی ان علاقائی خواہشات کے علاوہ ، ترک اسرائیل ، سعودی عرب اور مصر کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی اور بہتری میں مصروف ہیں ، اس سلسلے میں وہ اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ انھوں نے اخوان المسلمین سے بھی منھ پھیر لیا ہے۔