سچ خبریں:متحدہ عرب امارات اور اردن کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کے بعد، اسد خلیج فارس کے دل میں موجود دیگر عرب طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک غیر متوقع دورے پر مسقط روانہ ہوئے۔
شام کے صدر بشار الاسد تقریباً ایک دہائی کے بعد سلطنت عمان گئے اور ہیثم بن طارق سے ملاقات اور گفتگو کی،شام میں بحران اور خانہ جنگی کے دور میں، عمان خلیج فارس تعاون کونسل کے ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے دمشق کے ساتھ تعاون کو معطل یا منقطع نہیں کیا لیکن ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے فوجی تنازعات کو کم کرنے کی کوشش کی اور سیاسی اختلافات کو کم کرنے کی صلاح دی،اس کے علاوہ شام میں کشیدگی کی آگ کم ہونے کے بعد، عمانی سفیر 8 سال کی غیر حاضری کے بعد 2020 میں دمشق واپس آئے اور عمانی سفارت خانے نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں۔
واضح رہے کہ صیہونیوں اور خلیج فارس کی بعض حکومتوں کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد عمانی پارلیمنٹ ان چند عرب ممالک میں سے ایک تھی جنہوں نے جنہوں نے صیہونیوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے ثقافتی، سیاسی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو جرم قرار دے کر ثابت کر دیا کہ وہ تہران اور مزاحمت کے محور کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اس بنا پر اس تجزیے میں شام کے صدر کے عمان کے دورے کی وجوہات کے علاوہ ہم عرب پارلیمنٹ کے صدور اور مصری وزیر خارجہ کے دمشق کے تاریخی سفر کا بھی جائزہ لیں گے۔
مصر کے وزیر خارجہ اور عرب اسمبلیوں کے سربراہان دمشق میں
شام کے بیشتر علاقوں پر دمشق کی حکمرانی قائم ہونے کے بعد مصر، اردن، بحرین، الجزائر، لبنان، متحدہ عرب امارات، عراق اور بلاشبہ عمان جیسے زیادہ تر عرب ممالک شام کی عرب لیگ میں واپسی کے حق میں ہیں جس کا مقصد خطے میں ترکی اور دیگر غیر ملکی اداکاروں کے اثر و رسوخ کو کنٹرول کرنا ہے، اس مثبت سیاسی فضا کی تصدیق میں شاید سب سے اہم واقعہ 26 فروری کو 12 عرب ممالک (قطر، مراکش اور سعودی عرب کے علاوہ) کی پارلیمنٹ کے سربراہان کا دورہ دمشق تھا۔ یہ دورہ اس وقت ہوا جب سعودی عرب، قطر اور مراکش شامی اپوزیشن کی حمایت جاری رکھنے، مزاحمت کے ساتھ سیاسی اختلافات اور اسرائیلی حکومت کے دباؤ کی وجہ سے عرب لیگ میں شام کی واپسی کی مخالفت کرتے رہے۔
اس بنا پر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسد کے مسقط کے دورے کا بنیادی مقصد "سیاسی” تھا اور وہ ایک "عملی” رہنما کے طور پر سعودی عرب اور قطر جیسی مخالف عرب حکومتوں کی کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اسد بخوبی جانتے ہیں کہ عالمی ہمدردی کے احساس اور عرب رائے عامہ کی شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش کی وجہ سے دمشق کے سفارتی تعلقات کے میدان میں ایک نیا باب شروع کرنے کا ایک منفرد تاریخی موقع پیدا ہوا ہے، شاید متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید کے شام کے پے در پے دوروں، اردن کے وزیر خارجہ کا گزشتہ ہفتے دمشق کا دورہ اور مصری وزیر خارجہ سامح شکری کے اس ملک کے بے مثال دورے کا تجزیہ اسی تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عرب پارلیمنٹ کے اسپیکر الحلبوسی نے ایک بیان میں عرب ممالک کی جانب سے شام کو عرب دنیا کو واپس کرنے کے فیصلے پر زور دیا جس کے بعد اب مزید امید ہے کہ شام کی جائز حکومت حزب اختلاف کے ساتھ برسوں کی سیاسی کشیدگی اور سلفی دہشت گردوں کے ساتھ خانہ جنگی کے بعد عرب لیگ میں اپنی کرسی واپس لے لیے گی۔
دوحہ ریاض تعلقات کو معمول پر لانے کی الٹی گنتی
مسقط کا دورہ محض عمان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے یا سیاسی تنہائی سے بچنے کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ سعودی عرب اور قطر کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھرپور سیاسی مذاکرات کا اشارہ ہو سکتا ہے،درعا کے احتجاج کو ایک بڑے بحران میں بدلنا مغربی ایشیائی خطے میں طاقت کے بلاکس کی منصوبہ بندی کا نقطہ آغاز تھا تاکہ شام کے علاقے اور مشرقی بحیرہ روم میں جغرافیائی سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے،اگرچہ اخوان المسلمین اور سنی قدامت پسند بلاک شمالی افریقہ کے علاقے میں لڑ رہے تھے، تاہم دونوں فریق اسد حکومت کا تختہ الٹنے اور مزاحمتی محور سے باہر حکومت کے قیام پر متفق تھے،اگر ایران-سعودی کے درمیان بغداد سکیورٹی مذاکرات اور ترکی-شام کے درمیان ماسکو میں ہونے والے دفاعی تحفظ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو خطے کے سیاسی ماحول میں بتدریج تناؤ کو کم کرنے نیز دمشق کے ریاض-دوحہ کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی تیاری کرنی چاہیے، اس دوران مسقط مغربی ایشیائی خطے میں ایک ثالثی کرنے والے اداکار” کے طور پر، تین اہم اداکاروں کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے البتہ شام اور سعودی عرب کے درمیان بعض اقتصادی مواقع کے ذریعے تعلقات کو بہتر کرنے کا عمل دو سال قبل سے شروع ہوا ہے۔
قیصر کی پابندیوں کو بے اثر کرنا
شام میں ہونے والی انسانی تباہی نے اس ملک کی جائز حکومت کے خلاف پابندیاں منسوخ کرنے کے لیے امریکہ پر رائے عامہ کا دباؤ بڑھا دیا ہے،اس مسئلے کی وجہ سے امریکی محکمہ خزانہ نے ایک سرکاری بیان میں شام پر 6 ماہ تک پابندیوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تاکہ زلزلے سے ہونے والے نقصانات کی تعمیر نو میں مدد مل سکے، یہ اقتصادی موقع دمشق کو عمان اور خلیج فارس تعاون کونسل کے دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو تیز کر کے شام کی تعمیر نو اور اس ملک کے مہاجرین اور متاثرین کی مدد کے لیے اہم مالی وسائل حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ خطے کے ممالک شام کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور اس ملک کی منڈیوں میں شرکت کے اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بڑی خواہش رکھتے ہیں،خلیج فارس کے ممالک سے سرمائے کی آمد کے بعد، یہ شیخ حضرات بلاشبہ دمشق پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے اور تہران اور انقرہ کے خلاف توازن پیدا کرنے کے درپے ہیں۔
نتیجہ
زلزلے کی سفارت کاری خطے میں دمشق کی سفارتی نقل و حرکت کو سمجھنے کا صحیح نام ہو سکتا ہے،UAE-اردن کی وزارت خارجہ کی میزبانی کے بعد، اسد خلیج فارس کے دل میں موجود دیگر عرب طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک غیر متوقع دورے پر مسقط روانہ ہوئے نیزمصری وزیر خارجہ اور عرب ریاستوں کی اسمبلی کے اسپیکروں کا دمشق کا دورہ شام کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہے،اسد حکومت اپنی سفارتی سرگرمیاں بڑھا کر شام کو سیاسی تنہائی سے نکالنے اور اس ملک کو بتدریج خطے کے سیاسی مساوات کی طرف لوٹانے میں کامیاب رہی ہے، اس عمل کا تسلسل تہران اور مزاحمتی محور کے دیگر ارکان کے لیے اچھی خبر ہے، جو دمشق میں اپنا اتحادی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے، اور اب مشرق وسطیٰ کی عرب حکومتوں میں اس کی دوبارہ قبولیت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔