🗓️
سچ خبریں: غزہ کی جنگ کو ایک سال سات ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، لیکن صہیونی ریاست اور اس کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے تمام جنگی دعوے خاک میں مل چکے ہیں۔
انہوں نے ابتدا میں یہ یقین دلایا تھا کہ وہ مختصر وقت میں غزہ میں اپنے جنگی مقاصد حاصل کر لیں گے، حماس کو ختم کر دیں گے، اور تمام اسرائیلی قیدیوں کو طاقت کے بل پر واپس لے آئیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بھی قیدی کو فوجی کارروائی کے ذریعے آزاد نہیں کر سکے۔ ہر بار صہیونیوں کی کوششیں ناکام ہوئیں یا قیدیوں کی ہلاکت پر منتج ہوئیں۔
مارچ سے اب تک غزہ پر صہیونی ریاست کے وحشیانہ حملوں کے ازسر شروع ہونے اور قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں رکاوٹ کے بعد، جبکہ 59 اسرائیلی قیدی (زندہ یا مردہ) مزاحمت کی تحویل میں ہیں، نیتن یاہو اور اس کی کابینہ پر اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیلی فوج، سیکیورٹی اداروں اور دیگر اہم صہیونی اداروں میں جنگ جاری رکھنے کے خلاف بغاوت اور احتجاج کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔
حماس اور امریکہ کے مذاکرات نے صہیونیوں کو جھنجھوڑ دیا
نیتن یاہو پر دباؤ کے درمیان، جب اکثر اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے قیدیوں کی جانوں سے کھیل رہا ہے، حماس اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کا اعلان صہیونی حلقوں میں شدید غم و غصے کا باعث بنا۔ دونوں فریقین کے درمیان امریکی-اسرائیلی دوہری شہریت کے حامل قیدی عیدان الیکزانڈر کی رہائی پر اتفاق ہوا، جس نے اسرائیلیوں کو مایوس کر دیا۔ انہیں احساس ہو گیا کہ جنگ نیتن یاہو کے مفادات کے تحت جاری رہے گی اور امریکہ صرف انہی قیدیوں کی فکر کرے گا جو امریکی شہری ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں موجود دیگر اسرائیلی قیدیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، جو اسرائیلی فوج کی بمباری اور محاصرے کے باعث ہر لمحہ موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
صہیونی مصنف رعنان شاکید نے اخبار یدیعوت احرونوت میں لکھا کہ حماس اور واشنگٹن کے درمیان معاہدہ یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر آپ کے پاس صرف اسرائیلی شہریت ہے، تو آپ اپنی حکومت سے کچ بھی توقع نہ کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ "اگر آپ قید ہیں اور آپ کے پاس امریکی شہریت نہیں ہے، خاص طور پر نیتن یاہو کی کابینہ کے دور میں، تو آپ کو مرنا ہوگا۔ یہ صرف میری ذاتی رائے نہیں، بلکہ یہ وہ بات ہے جو امریکی صدر نے واضح کر دی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ جنرل اور کنیسٹ کے رکن گدی آیزنکوٹ نے بھی نیتن یاہو اور اس کی کابینہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ فیصلہ کن اقدامات کرنے کے بجائے ایک ایسی کہانی کے پیچھے چھپ رہی ہے جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عیدان الیکسانڈر کی رہائی کا معاہدہ اسرائیل کو بتائے بغیر کیا گیا۔ یہ اسرائیل کی کمزوری کی واضح علامت ہے۔
حماس اور امریکہ کے معاہدے کی تفصیلات
حماس اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کا اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ پر صہیونی ریاست کے وحشیانہ حملے دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔ اس معاہدے کی نوعیت اور نتائج کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں، خاص طور پر یہ کہ کیا یہ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ کی خواہشات کے برعکس آگے بڑھے گا؟
الجزیرہ کے مطابق، حماس کے ایک رہنما نے بتایا کہ امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات کئی دن تک جاری رہے، جن میں غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل اور فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر بات چیت ہوئی۔ امریکی اور صہیونی ذرائع نے بھی تصدیق کی کہ واشنگٹن کے خصوصی ایلچی اسٹیو وائٹکوف اسرائیل، قطر اور مصر کے ساتھ رابطوں کو ہم آہنگ کر رہے ہیں اور حماس سے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں، جس کا مقصد جنگ کو ختم کرنا ہے۔
یہ مذاکرات اس وقت سامنے آئے ہیں جب عبرانی میڈیا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان کشیدگی کو اجاگر کیا ہے۔ یمن کے ساتھ امریکہ کے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد، صہیونی حلقوں میں یہ بات اٹھائی گئی کہ ٹرمپ اپنے مفادات کو ترجیح دے رہا ہے اور یمن، ایران اور غزہ جیسے معاملات میں اسرائیل کی خواہشات کے خلاف عمل کر سکتا ہے۔
نیتن یاہو کے لیے جنگ کا بڑا دلدل
کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے سینئر محقق ڈگلس بینڈو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جانتی ہے کہ نیتن یاہو کوئی ایسا معاہدہ قبول نہیں کرے گا جو اس کی شرائط پر پورا نہ اترے، لیکن وہ اپنے مفادات کے تحت آگے بڑھنے پر مصر ہے، چاہے اس سے اسرائیلی کابینہ غصے میں آ جائے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "واشنگٹن کا نیتن یاہو کے سامنے کوئی بھی پسپائی ٹرمپ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے گی، خاص طور پر جب ٹرمپ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ آزاد ہے اور اسرائیل کے دباؤ میں نہیں۔
صہیونی ریاست کے امور کے ماہر ڈاکٹر مہند مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے ‘فیصلہ کن دنوں’ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر قیدیوں کے تبادلے اور طویل جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کا شدید دباؤ ہے۔ وہ اندرونی اور بیرونی طور پر گھرے ہوئے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ غزہ پر فوجی دباؤ اور محاصرے کے باوجود وہ اپنی شرائط نہیں منوا سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جنگ بندی کا کوئی نیا معاہدہ ہوتا ہے جو صہیونی انتہا پسندوں کے ایجنڈے کے مطابق نہیں ہے، تو نیتن یاہو کی اتحادی حکومت ٹوٹ سکتی ہے، جو اس کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
حماس نے امریکہ کو کیسے شکست دی؟
عرب سیاسی تجزیہ کار احمد الحلیہ کا کہنا ہے کہ حماس نے ہمیشہ واضح اصولوں پر مذاکرات کئے ہیں۔ ان کی بنیادی شرائط میں صہیونی ریاست کے غزہ پر حملوں کا مستقل خاتمہ، غزہ سے مکمل انخلا، محاصرے کا خاتمہ اور مزاحمت کو غیرمسلح کرنے یا فلسطینی عوام کی توہین کرنے والے کسی بھی معاہدے سے انکار شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے نیتن یاہو کے تمام مطالبات کو مسترد کر دیا جن کا مقصد فلسطینی مزاحمت اور عوام کو شکست دینا تھا۔ امریکہ کے مذاکرات میں داخل ہونے سے جنگ ختم کرنے کا عمل تیز ہوا ہے، لیکن نیتن یاہو کی جنگ کو طول دینے کی کوششوں اور اسرائیل کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے مذاکرات کی کامیابی یقینی نہیں ہے۔
مزاحمت کے مذاکرات میں مضبوط پتے
اردنی فوجی اور اسٹریٹجک ماہر جنرل فائز الدویری کا کہنا ہے کہ غزہ کی زمینی حقیقت مزاحمت کے حق میں ایک طاقتور ترین کارڈ ہے، جس نے امریکہ کو براہ راست حماس سے مذاکرات پر مجبور کیا۔ حماس کی فوجی کارکردگی، خاص طور پر رفح اور بیت حانون میں، نے اس کے موقف کو مضبوط کیا اور واشنگٹن کو نئے پیشکش کرنے پر مجبور کیا جو گزشتہ ہفتے تک ناقابل تصور تھے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ کسی بھی معاہدے کے غیر واضح نکات فلسطینیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر مزاحمت کے ہتھیاروں اور اسرائیلی قیدیوں کے کارڈ کے حوالے سے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ہتھیار ہی وہ چیز ہے جو طاقتور کو کمزور سے مذاکرات پر مجبور کرتا ہے۔ لہٰذا، مزاحمت کو کسی بھی معاہدے کے بعد بھی اپنے ہتھیاروں کو برقرار رکھنا ہوگا۔
نتیجہ
موجودہ جنگ کا توازن اس بات پر منحصر ہے کہ صہیونی قیدی غزہ میں زندہ رہیں اور صہیونی ریاست کو جنگ جاری رکھنے کا اختیار نہ دیا جائے۔ یہی وہ وجہ ہے جس نے امریکہ کو براہ راست حماس سے مذاکرات پر مجبور کیا، اور صہیونیوں کو بھی مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا ہے۔
تاہم، امریکہ کی پیشکش کے بارے میں ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اب تک صرف یہی معلومات سامنے آئی ہیں کہ واشنگٹن اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں، امداد اور جنگ بندی پر بات چیت ہوئی ہے، لیکن حماس کی اصل مطالبات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
مزاحمت کے دو اہم ترین کارڈز ہتھیار اور اسرائیلی قیدی ہیں، جنہیں وہ کسی صورت قربان نہیں کرے گی۔ دوسری طرف، نیتن یاہو جنگ کو طول دینے کی بات کرتا ہے، لیکن اس میں ٹرمپ کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ ٹرمپ نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک تاجر کی حیثیت سے خطے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا۔ اب ہمیں اس کے سفر کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
بحرین اور صیہونی حکومت کے درمیان تجارت کا آغاز
🗓️ 10 جنوری 2022سچ خبریں:بحرین کی آل خلیفہ حکومت نے صیہونی حکومت کے ساتھ ایلومینیم
جنوری
اسرائیلی دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کی سینکڑوں نامور شخصیات نے جو بائیڈن سے اہم مطالبہ کردیا
🗓️ 22 جون 2021واشنگٹن (سچ خبریں) اسرائیلی دہشت گردی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کی سینکڑوں
جون
خواجہ آصف کی وزیر اعظم کے دورے کے حوالے سے پریس بریفنگ
🗓️ 17 ستمبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے
ستمبر
کیا امریکہ کا پاکستان کے ساتھ تعاون جاری ہے؟امریکی سفیر کی زبانی
🗓️ 24 جولائی 2024سچ خبریں: پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا ہے
جولائی
شمالی محاذ پر صیہونی فوج جنگی مشقوں کا آغاز
🗓️ 28 مئی 2023سچ خبریں:صہیونی فوج نے مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں میں بڑے پیمانے
مئی
افغانستان کو نظرانداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی،شہباز شریف
🗓️ 16 ستمبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ خطے کے
ستمبر
آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کرائیں گے: وفاقی کابینہ
🗓️ 5 اکتوبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) وفاقی کابینہ نے آئندہ انتخابات سے متعلق اہم
اکتوبر
کینیڈا نے ایران کی مورل سیکیورٹی پولیس پر پابندیاں لگائی
🗓️ 27 ستمبر 2022سچ خبریں: ایک نیوز کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کینیڈا کے
ستمبر