سچ خبریں:القدس العربی اخبار نے ایک طرف امریکہ کی علاقائی طاقت کے بڑھتے ہوئے زوال اور اسرائیل کے خلاف استقامتی گروہوں کی فوجی صلاحیتوں میں توسیع کے ساتھ ساتھ خطے میں ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
القدس العربی اخبار نے لبنانی تجزیہ نگار عصام نعمان کا لکھا ہوا ایک کالم شائع کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ استقامتی تحریک کے کمانڈروں نے کبھی بھی عالمی یوم قدس کے موقع پر فلسطین، لبنان، عراق اور ایران سے فلسطین کے مستقبل کے بارے میں اور صیہونی حکومت کے ساتھ تنازعات کے بارے اپنے موقف اور خیالات کے بارے میں اتنی مضبوطی سے بات کی ہو۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان بے تکلف اور شفاف تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین ایک مختلف مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں صرف یورپی اور امریکی ہی اس کا فیصلے کرنے والوں کا کردار ادا نہیں کرتے،یہ درست ہے کہ صہیونیوں کے ساتھ لڑائی کے میدان میں فتح کا وقت ابھی نہیں آیا لیکن اس کے آثار نظر آ رہے ہیں ،اس سلسلہ میں درج ذیل امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ میں آیا ہے کہ مغربی ایشیائی خطے میں امریکہ کی موجودگی اور اثر و رسوخ کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مشرق میں افغانستان کے پہاڑوں سے لے کر مغرب میں بحیرہ روم کے ساحلوں تک؛ یہ مسئلہ دنیا کی یک قطبی پوزیشن سے امریکہ کے زوال کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ ایران نام کا ایک علاقائی ملک امریکہ کے خلاف طاقت پکڑ رہا ہے اور مغربی ایشیا کے میدانوں میں اپنی قابل قدر صلاحیتوں اور فعال موجودگی کے ساتھ ایک موثر کردار ادا کر رہا ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ اور اس ملک کا علاقائی جانشین سمجھے جانے والے اسرائیل کی خودمختاری اور وجود ایک طرف بنیادی اندرونی تضادات اور اس غصب شدہ زمین کے مالکان کی بڑھتی ہوئی عوامی مزاحمت کے بوجھ تلے دب کر تقسیم اور بکھرتا جا رہا ہے، ان دونوں نکتوں کے ساتھ ایک اور چیز بھی شامل کر لیں، وہ عرب قوموں کا نیند سے بیدار ہو کر مسئلہ فلسطین اور صیہونی حکومت کے خلاف استقامتی تحریکوں پر توجہ دینا ہے۔
بعض استقامتی تحریکیں خاص طور پر حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو اپ گریڈ کرنے نیز اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے،یہ مسئلہ صیہونی حکومت کے ساتھ حزب اللہ کی محاذ آرائی اور 2006 سے اس حکومت کے خلاف کاروائیوں میں پوری طرح سے سمجھا جا سکتا ہے جہاں حزب اللہ صیہونی حکومت کی فوج کو ایک طرف دھکیلنے اور استقامت کا توازن پیدا کرنے نیز اس حکومت کے ساتھ تصادم کے اصولوں کو تبدیل کرنے میں کامیاب رہی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی مسابقت کے خلا کو کم کرنے میں چین کی کامیابی اور مشرقی یورپ بالخصوص یوکرین میں نیٹو معاہدے کے دائرہ کار کو روکنے میں روس کی کامیابی نے بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطی کے تعلقات براہ راست متاثر ہوئے ہیں،ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کا حصول ، خلیج فارس ممالک کے اور شام کے درمیان تعلقات کی بحالی، دمشق کی عرب لیگ میں جلد واپسی اور یمن کی جنگ کا خاتمہ اسی تبدلی کا نتیجہ ہے،یہ تمام صورتحال ایک طرف مغربی ایشیا میں بالعموم اور مشرقی عرب دنیا کے ممالک میں بالخصوص تناؤ اور تنازعات کو کم کرنے نیز صیہونی حکومت کے خلاف عربوں کے درمیان مزاحمت کے محاذ کو وسعت دینے اور باہمی تعاون کو مزید گہرا کرنے میں مدد دیتی ہے۔
اس رپورٹ کے تسلسل میں عصام نعمان نے تاکید کی کہ یہ رجحان مغربی ایشیا کے خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرے گا اور اس کے نتیجے میں عرب دنیا کے مشرق و مغرب میں عرب ممالک کے درمیان صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عوامل کو کمزور کر دے گا،ساتھ استقامتی گروہوں کی طاقت اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں ان کی ڈیٹرنس پاور کی توسیع کے بارے میں صیہونی دشمن کے خدشات میں اضافہ ہوگا ۔
یہاں تین سوالات اٹھتے ہیں:
1۔ امریکہ ان مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات سے کیسے نمٹے گا جنہوں نے اس ملک کی طاقت اور اس کی آزادی کو کمزور کر دیا ہے؟
2۔ کیا اسرائیل ایک طرف ایران کی طاقت میں اضافے اور استقامتی گروپوں کی طاقت میں اضافے اور دوسری طرف ان کی جنگی اور فوجی کارکردگی میں بہتری کو دیکھتے ہوئے فوجی حملہ کرے گا؟
3۔ کیا استقامتی محور کے حامی ممالک اسرائیل کی اس ممکنہ حماقت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے خلاف بھرپور حملہ کریں گے تاکہ اس خطے کی مقبوضہ سرزمین کے مکینوں کا ایک بڑا حصہ وہاں سے نکل جائے۔
انہوں نے مزید لکھا کہان سوالوں کے جواب میں ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ میں پیشین گوئی کرتا ہوں کہ امریکہ شام سے اپنی افواج کے انخلاء کے عمل میں نہ صرف تاخیر کرے گا بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ کرے گا،یہ ملک بحیرہ روم کے مشرقی حصے میں اپنے جنگی جہازوں کی تعداد میں خاص طور پر ترکی اور خلیج فارس کے ممالک میں اضافہ کرے گا۔
اسرائیل کے بارے میں ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ نیتن یاہو کو اس وقت اس حکومت کے اندر ذاتی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے اور ساتھ ہی وہ ایران کی عسکری اور اقتصادی طاقت میں اضافے سے خوفزدہ ہیں لہذا یقیناً اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اس حکومت کے اندر سیاسی بحران کا شکار رہتے ہوئے ایران کے خلاف فوجی حماقت میں ملوث ہوں گے۔ اگر نیتن یاہو ایسی حماقت کا ارتکاب کرتے ہیں تو استقامتی محور کے ممالک بھی بجلی کی طرح اس کا ردعمل ظاہر کریں گے۔