سچ خبریں:مزاحمتی ذرائع ابلاغ میں ایسی متعدد رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جن میں صیہونی حکومت کے انتہائی اہم اور حساس مقامات کو متعارف کرایا گیا ہے جو مستقبل کی کسی بھی جنگ میں نشانہ بن کر اسرائیلیوں کی زندگیوں کو مفلوج کر سکتے ہیں۔
خطے اور دنیا میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت میں بہت سے عسکری رازوں بالخصوص اس میدان میں اپنی حکمت عملی کے افشا ہونے کا خوف بڑھ گیا ہے۔ اس سلسلے میں المیادین چینل نے اسرائیل کے ٹارگٹ بینک اور اس حکومت کے حساس ٹھکانوں پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جو کسی بھی جنگ میں نشانہ بن سکتے ہیں،اس رپورٹ کے آغاز میں فوجی سطح پر صیہونی حکومت کی عمومی صورتحال اور اس کے ساز و سامان کا جائزہ لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گلوبل فائر پاور ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، صیہونی حکومت فوجیوں اور فوجی سازوسامان کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی طاقتور ترین فوجوں میں 20 ویں نمبر پر ہے، حالانکہ اسرائیلی حکومت کے ہتھیاروں اور فوجی صلاحیتوں کا ایک بڑا حصہ امریکہ پر منحصر ہے جو اس حکومت کی مستقل حمایت کرتا ہے، اسی طرح اسرائیلی فوج کے پاس تقریباً 170000 باقاعدہ اور 460000 ریزرو فوجی ہیں جبکہ اس حکومت میں ٹینکوں کی تعداد 1560 تک پہنچ گئی ہےجن میں سے زیادہ تر پچھلے سالوں میں بنائے گئے ہیں، 7500 بکتر بند گاڑیاں، 650 خود سے چلنے والی بندوقیں اور 100 سے زائد راکٹ لانچر بھی صہیونی فوج کے قبضے میں ہیں۔
واضح رہے کہ فضائیہ کی سطح پر اسرائیلی فوج کے پاس 600 جنگی طیارے ہیں جن میں امریکی ساختہ F-35 جنگی طیارے بھی شامل ہیں جبکہ 130 ہیلی کاپٹر بھی اسرائیلی فضائیہ کے اختیار میں ہیں، اسرائیلی بحریہ میں 65 فوجی یونٹس ہیں جن میں 48 بحری جہاز، 24 کوسٹ گارڈ کشتیاں، 5 آبدوزیں، 10 فوجی کشتیاں اور 19500 اہلکار شامل ہیں۔ انٹرنیشنل سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کی وزارت جنگ کا بجٹ تقریباً 18 ارب ڈالر ہے، کچھ بین الاقوامی رپورٹس بشمول امریکی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اسرائیل کے پاس 200 سے زیادہ ایٹم بم ہیں۔
صیہونی حکمرانی کے حساس مراکز
یہاں حکمرانی سے مراد وہ صیہونی سرکاری مراکز ایسے ادارے ہیں جو صیہونی حکومت کی کابینہ کی اعلیٰ ترین پالیسیاں مرتب کرتے ہیں اور اس کے مستقبل کے منصوبوں کو منظم کرتے ہیں؛ یعنی کابینہ انہیں کے زیر انتظام ہے،یہ ادارے صہیونی معاشرے کی داخلی سلامتی اور استحکام کے تحفظ اور مسائل کا مناسب حل فراہم کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں،یہ مراکز داخلی اور خارجی تعلقات کی وضاحت، بجٹ کی منظوری اور حساس قوانین کے قیام کے ذمہ دار ہیں۔
یہاں ہم صیہونی حکمرانی کے متعدد سرکاری مراکز کا ذکر کریں گے:
1 ۔ صیہونی کنیسٹ (صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ) جو صیہونی حکومت کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
2 ۔ صیہونی وزیراعظم کا دفتر؛ یہ ادارہ صیہونی حکومت کی وزراء کونسل کی پالیسی بنانے کا ذمہ دار ہے اور دنیا کے مختلف ممالک میں خارجہ سفارتی تعلقات کا بھی ذمہ دار ہے۔
3 ۔ صیہونی وزارت جنگ: یہ وزارت صیہونی حکومت کے لیے ایک انتہائی حساس ادارہ ہے جو اندرونی اور بیرونی فوجی خطرات سے اسرائیلیوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اور اس کا اعلیٰ ترین اختیار وزیر جنگ کے پاس ہے۔
4 ۔ وزارت خزانہ: اس وزارت کو صیہونی حکومت کا مرکزی اقتصادی مرکز سمجھا جاتا ہے۔
5 ۔ وزارت خارجہ: وزارت خارجہ صیہونی حکومت کی اہم ترین وزارتوں میں شمار ہوتی ہے۔
6 ۔ وزارت مواصلات: یہ وزارت ممالک کے ساتھ تعلقات کے ضابطے کی نگرانی کرتی ہے اور مختلف ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں اور پوسٹل سروسز کی پالیسی کا تعین کرنے کی ذمہ دار ہے۔
توقع کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ بالا اداروں یا ان کے کسی حصے پر کوئی فوجی حملہ بالخصوص وزیر اعظم کے دفتر، وزارت جنگ اور وزارت مواصلات پر صیہونی کابینہ کے عدم توازن اور متعدد میدانوں میں اس کے کنٹرول کو کھونے کا باعث بنے گا نیز اس سے صیہونیوں کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔
جوہری مقامات اور سہولیات
ابھی تک صیہونی حکومت نے سرکاری طور پر اس بات کا اعلان نہیں کیا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور نہ ہی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، لیکن قابض حکومت کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں سب سے نمایاں معلومات اکتوبر 1986 میں اسرائیلی انجینئر "مردچائی وانونیو” نے ظاہر کی تھیں جنہوں نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کی جوہری فائل سے متعلق خفیہ دستاویزات کا انکشاف کیا تھا، اس کے بعد انہیں موساد کے ایجنٹوں نے اغوا کیا اور 18 سال قید کی سزا سنائی۔
– ڈیمونا ری ایکٹر، یہ ری ایکٹر گزشتہ صدی کے 60 کی دہائی میں فرانس کی مدد سے مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں صحرائے نیگیو میں بنایا گیا ہے، یہاں کام کرنے والے اسرائیلی انجینئر مورڈیچائی ونونو کے مطابق ڈیمونا ری ایکٹر سالانہ 40 کلوگرام پلوٹونیم فوجی مقاصد کے لیے تیار کرتا ہے اور اس کی کام کرنے کی صلاحیت کم از کم 150 میگاواٹ ہے۔
تیرش تنصیبات؛ ان تنصیبات میں اسٹریٹجک جوہری ہتھیار شامل تھے۔
یدیوات تنصیبات؛ جوہری ہتھیاروں کو جمع کرنے اور الگ کرنے کے لیے ایک خاص تنصیبات ہے۔
حیاتیاتی تحقیقی مرکز: یہ مرکز صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے دفتر سے براہ راست وابستہ ہے۔
البن گودام: اس گودام میں جوہری ہتھیار موجود ہیں، جو الجلیل کے علاقے میں البون گاؤں کے قریب واقع ہے اور وہاں جوہری بارودی سرنگیں رکھی گئی ہیں۔
رافیل سینٹر: اسرائیل آرمز ڈیولپمنٹ بورڈ کے سرکاری نام کے ساتھ یہ مرکز دنیا میں بحری، فضائی اور زمینی ہتھیاروں کے نظام کی تعمیر اور ترقی کے سب سے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔
ویزمین سائنٹیفک انسٹی ٹیوٹ: یہ انسٹی ٹیوٹ الرملہ شہر کے قریب رہبوت کے علاقے میں واقع ہے اور 1934 میں قائم کیا گیا تھا۔
اسرائیل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ: یہ انسٹی ٹیوٹ 1924 میں حیفا میں قائم ہوا اور بعد میں یونیورسٹی بن گیا۔
صیہونی اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے اندر جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے ایسے نقصانات ہو سکتے ہیں جن کی تلافی یا کنٹرول نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ امریکی اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل بہت پریشان ہے کہ اگر ڈیمونا جیسے ری ایکٹر کو میزائل حملے سے نشانہ بنایا گیا تو ری ایکٹر کے اندر بھاری پانی بکھر جائے گا اور دھماکے اور آگ لگ جائے گی، جس میں اس کے جوہری ایندھن کے اجزاء شامل ہوں گے نیز اس سے تابکار مواد نکلنے لگے گا۔
امریکی اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ڈیمونا ری ایکٹر میں کسی بھی قسم کے رساؤ یا دھماکے سے ارد گرد کے علاقوں میں بہت زیادہ نقصان پہنچے گا جو اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے جنوب میں النقب کے علاقے سے شروع ہو کر تل ابیب تک پہنچے گا؛ یعنی مقبوضہ علاقوں کے مرکز میں؛ وہ علاقے جہاں 50 لاکھ اسرائیلی رہتے ہیں۔
صیہونی عوامی اور فوجی اور انٹیلی جنس ہوائی اڈے
الف) عوامی ہوئی اڈے
1۔ بین گوریون انٹرنیشنل ایئرپورٹ
2 ۔ حیفا بین الاقوامی ہوائی اڈہ
3 ۔ رامون انٹرنیشنل ایئرپورٹ
ب) فوجی اور انٹیلی جنس ہوائی اڈے
1۔ سیدوت میحا اڈہ
2 ۔ رامون ایئر بیس
3 ۔ رامات ڈیوڈ ایئر بیس
4 ۔ حتسور ایئر بیس
5 ۔ حتصریم ایئر بیس
6 ۔ نیواٹیم ایئر بیس
7 ۔ ٹیل نوف ایئر بیس
8 ۔ بلما حتیم ایئر بیس
9 ۔ اوریم ڈیٹا بیس
صیہونی حکومت کے فوجی، انٹیلی جنس اور جاسوسی اڈے بھی کسی بھی جنگ میں اسرائیل کا ایک اہم اور اسٹریٹجک وزن ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی ناکامی اس حکومت کی فضائی صلاحیت کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے، اورم جاسوسی اڈے کو نشانہ بنانا بھی صہیونیوں کے لیے دشمن سے جنگی معلومات حاصل کرنے کے میدان میں ایک بڑا مسئلہ پیدا کرتا ہے۔