🗓️
اسلام آباد: (سچ خبریں) سیاست سے ہٹ کر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں اور ان کی حکومتوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں جن کی بنا پر وہ ایک دوسرے کی حکومتوں پر تنقید کے نشتر برساتی ہیں۔ میں اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں ان کے کم اختیارات یا ان رقوم کو خرچ کرنے میں ان کی ہوس کی بات نہیں کررہی جس کے درحقیقت وہ درست حق دار بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ وہ دیگر معاملات میں ایکا کرلیتے ہیں بالخصوص جب ہائر ایجوکیشن اداروں کو اپنے ماتحت لانے کی بات آتی ہے تو ان میں مماثلت ہے۔
مختلف صوبوں سے سامنے آنی والی حالیہ خبروں کو ہی دیکھ لیں۔ سندھ حکومت نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے بعد ماہرِ تعلیم کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹس کو بھی جامعات کا وائس چانسلر تعینات کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس قانون نے پی ایچ ڈی کی شرط حذف کرکے تقرری کے عمل کو زیادہ آسان بنا دیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں جیسے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور جماعت اسلامی نے اس بل کی مخالفت کی لیکن اسمبلی میں تعداد کا کھیل ہی کچھ ایسا ہے کہ حکومت کو بل منظور کروانے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اپوزیشن جماعت کے گورنر صرف کچھ دنوں کے لیے بل ملتوی کرسکتے ہیں۔ ڈان کی اسٹوری کے مطابق قائد حزب اختلاف نے کہا، ’اب ایس پی (سپرنٹنڈنٹ آف پولیس) بھی جامعہ کا وائس چانسلر تعینات ہوسکتا ہے‘۔
خیبرپختونخوا میں بھی حکومت نے ایوان میں اپنی تعداد کا فائدہ اٹھایا اور قانون میں ترمیم کرکے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے اختیارات وزیراعلیٰ کو سونپ دیے۔ ان ترامیم سے حکومت کو یہ اختیارات بھی ملتے ہیں کہ وہ وائس چانسلر کی 4 سالہ مدت کے دو سال گزرنے کے بعد تقرر کردہ شخص کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیں۔ ایک بار پھر گورنر کی اپوزیشن کے پاس بل منظور کرنے میں تاخیر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
تاہم اس کے بعد متعلقہ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ قانون میں یہ تبدیلیاں ’جامعات کی مالی لین دین، کارکردگی اور ان کی خودمختاری میں مداخلت کرنے‘ کے مترادف ہے۔ درخواست گزار نے دلیل دی کہ پہلے یہ اختیارات گورنر کے پاس تھے جو صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ سے مشاورت کے بعد فیصلہ لیتے تھے۔ یوں چیک اینڈ بیلنس سسٹم چلتا تھا۔
پنجاب میں فی الحال کوئی قانون منظور نہیں ہوا ہے لیکن اطلاعات ہیں کہ لاہور حکومت بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے اور اس شعبے پر کنٹرول کو مرکزی بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مجوزہ تبدیلیوں سے وزیراعلیٰ اور وزرا، اعلیٰ تعلیمی اداروں کو چلانے والی سنڈیکٹس کے سربراہ بن جائیں گے اور وائس چانسلرز کو ان کے قائدانہ کردار سے ہٹا دیا جائے گا۔ ان ممکنہ اقدامات کے بارے میں تحفظات واضح طور پر سامنے آرہے ہیں جہاں لاہور میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور محکمہ ہائر ایجوکیشن کے زیر اہتمام ایک حالیہ کانفرنس میں شرکت کرنے والے ماہرین تعلیم نے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
حتیٰ کہ وہ لوگ جو شعبہ تعلیم پر قریبی نظر بھی نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ حیران کُن تھا کہ ملک کی تین صوبائی حکومتیں جہاں تین مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے، ایک شعبے میں ایک ہی جیسے اقدامات لینے کی کوشش کررہی ہیں جبکہ ان کی ٹائمنگ میں بھی زیادہ فرق نہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟
اس کی سادہ سی وضاحت یہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کو مخالف جماعت کے گورنرز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کے لیے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کا آسان حل یہی ہے کہ وہ قانون تبدیل کردیں۔
یہ ممکن ہے کیونکہ جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری کے حوالے سے وزیراعلیٰ اور گورنر پنجاب کے درمیان تناؤ کی خبریں سامنے آرہی ہیں جوکہ التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے نگران حکومت کی جانب سے دیے گئے ناموں کو وائس چانسلرز تعینات کرنے سے انکار کردیا تھا۔
تاہم یہ صرف انتظامی رکاوٹوں سے نمٹنے اور پہلے سے ہی دبی ہوئی اپوزیشن کو مزید کچلنے کی کوشش نہیں ہوسکتی۔ حالیہ دور میں اپنے صوبے میں تعینات کردہ بیوروکریٹس کا معاملہ زیادہ تر وزرائے اعلیٰ کے زیرِ کنٹرول نہیں ہوتا لیکن ان کے نزدیک دوسری سیاسی جماعتوں کے گورنرز کو بھی یہ ان اختیارات کے استعمال کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
تاہم معاملہ شاید یہیں ختم نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بوسیدہ صوبائی گورننس کے نظام پر مزید براہ راست کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا سیکٹر جسے اب بھی زیادہ تر مرکزی حکومت کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں کہ جب بجٹ کم ہورہا ہے اور مالی مسائل ہیں تو یہ ایک ایسا شعبہ ہے جسے اپنے ماتحت کرکے صوبائی حکومتیں زیادہ فائدہ حاصل کرسکتی ہیں۔
ایک وسیع سیاسی ماحول میں جہاں حکومتوں کی قیادت ایسی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں جو منصفانہ، مقبول ووٹ حاصل کرنے کے بجائے ریاستی مشینوں کو کنٹرول کرکے یا ان کی مدد سے انتخابات میں کامیاب ہوکر حکومتیں بناتی ہیں، انہیں اپنے حکمرانی کے مقاصد کے حوالے سے ابہام نہیں ہوتے۔ یہ عوام کی خدمت کرنے کے بارے میں کم سوچتی ہیں جبکہ ریاستی فوائد کی تقسیم کے ذریعے حمایت اور انہیں اقتدار میں لانے والے سہولت کاروں کو مطمئن رکھنے میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر بیوروکریسی ایسی حکومتوں کی بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یہ وضاحت پیش کرتا ہے کہ سندھ میں جامعات پر براہ راست کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کیوں بیوروکریٹس کو جامعات کے وائس چانسلرز تعینات کرکے انہیں چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ خدمات کے اعتراف میں مخصوص بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کردیا جائے گا۔ (یا ہوسکتا ہے کہ بیوروکریسی اپنے لیے مزید جگہ نکالنے کی کوشش کر رہی ہو کیونکہ اس کی ذمہ داریوں میں توسیع کی وجہ سے وہ بہت سے ایسے عہدوں سے محروم ہو رہی ہے جو کبھی ان کے لیے مختص تھے۔)
یہ حالیہ اقدامات بتاتے ہیں کہ ہماری حکومتیں تعلیم کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔ جس طرح صوبے کے دیگر سرکاری اداروں کو نوکریوں اور سفارشوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہائر ایجوکیشن کی اہمیت کے حوالے سے عوامی سطح پر بیانات دینے کے باوجود اس شعبے کے ساتھ بھی یہی کیا جارہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے ساتھ سلوک بھی صوبائی حکومتوں کے زیرِکنٹرول دیگر شعبہ جات سے مختلف نہیں۔ درحقیقت جب مالی معاملات کی بات آتی ہے تو بجٹ میں کٹوتیوں کے پیش نظر ہائر ایجوکیشن ایک ایسی سوتیلی اولاد بن جاتا ہے جسے عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
وہ لوگ جو روز اخبارات نہیں پڑھتے وہ بھی زیادہ تر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مالی کٹوتیوں کے حوالے سے واقف ہیں۔ سرکاری جامعات کے مختلف شعبہ جات کے طلبہ یا اساتذہ سے بات چیت میں پتا چلتا ہے کہ کیسے کبھی کبھی ان کے پاس تو اسٹیشنری کی بھی قلت ہوجاتی ہے۔ طلبہ کو ان کی سرگرمیوں کے لیے فنڈز نہیں دیے جارہے جبکہ ان طلبہ کو داخلے مل رہے ہیں جو سبسٹڈی کی تعلیم کے بجائے سیلف فنانس پر تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے ہائی ایجوکیشن کے بجٹ کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں جس کے لیے اکثر مالی وسائل کی کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ مالیاتی رکاوٹیں حکومتوں کو دوسرے شعبہ جات میں اخراجات میں اضافے کرنے سے کبھی نہیں روکتی ہیں اور ججز، بیوروکریٹس اور اراکینِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ یا اسلام آباد میں غیر ضروری سڑکیں بنانے کے لیے ان کے پاس وسائل ہوتے ہیں۔
لیکن اگر یہ ’سوتیلی اولاد‘ سرپرستی کے مواقع فراہم کرے گی تو کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت انہیں ہاتھوں سے جانے نہیں دے گی۔ اس مقصد میں سب متحد ہیں۔
مشہور خبریں۔
مٹھی بھر ڈالر کے لیے؛ یوکرین کی حمایت کرنے والے کرائے کے مزدوروں کی اجرت بے نقاب
🗓️ 20 فروری 2023سچ خبریں:روس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ الیگزینڈر باسٹریکن کا کہنا ہے
فروری
شام میں دہشت گرد صیہونی عناصر ہیں: الحشد الشعبی
🗓️ 3 دسمبر 2024سچ خبریں: عراق کی الحشد الشعبی تنظیم کے میڈیا ڈائریکٹر مہند العقابی
دسمبر
مراکش کے عوام کا غزہ کی حمایت میں مظاہرہ
🗓️ 10 جون 2024سچ خبریں: مراکش کے ہزاروں افراد نے شہر آگادیر کی سڑکوں پر
جون
غزہ میں جنگ بندی کا اعلان
🗓️ 16 جنوری 2025سچ خبریں: بالآخر غزہ کی پٹی اور اسرائیلی قبضے میں 467 دن اور
جنوری
شہید سلیمانی کے نزدیک مسئلہ قدس کا کیا مقام تھا؟
🗓️ 30 دسمبر 2023سچ خبریں: مزاحمت کے محور میں اب تک کئی نامور اور ممتاز
دسمبر
حماس اور جہاد اسلامی کا مشترکہ بیانیہ
🗓️ 23 اگست 2022سچ خبریں:فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں حماس اور جہاد اسلامی کے سربرہان کی
اگست
پابندیوں کی ساست کیسے خود امریکہ کے گلے پڑ گئی؟روسی سفیر کی زبانی
🗓️ 7 ستمبر 2024سچ خبریں: امریکہ میں تعینات روس کے سفیر کا کہنا ہے کہ
ستمبر
انگلینڈ کی گولیوں میں یورینیم کا استعمال
🗓️ 23 مارچ 2023سچ خبریں:برطانیہ نے یوکرین کو یورینیم سے بھرے گولے بھیجنے سے متعلق
مارچ