اسلام آباد: (سچ خبریں) تیزی سے ختم ہوتے وقت کے ساتھ پاکستان اور آئی ایم ایف 6 سے 9 ماہ کے لیے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر مالیت کے ایک نئے قلیل مدتی اسٹینڈ بائی انتظام پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں جو آئندہ مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران ملک میں سیاسی منتقلی کے ذریعے نئی منتخب حکومت حاصل کرے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے اکتوبر 2022 سے زیر التوا فنڈز کا اجرا نہ ہونے کے باوجود نویں جائزے کی تمام شرائط اور اس کے بعد دسویں اور گیارہویں اقساط سے متعلق پیشگی کارروائیوں کو پورا کرنے کے بعد یہ ان دو آپشنز میں سے ایک ہے جو فی الحال فریقین کے درمیان زیر بحث ہیں۔
ان آپشنز پر عملے کی سطح پر اور وزیراعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان حالیہ بیک ٹو بیک رابطوں کے دوران تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں منگل کی صبح کی گئی ایک ٹیلی فون کال بھی شامل ہے۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ ’سخت طریقے سے ہم نے نہ صرف نویں جائزے کی شرائط پوری کی ہیں بلکہ نظرثانی شدہ بجٹ کے ساتھ دسویں اور گیارہویں جائزے کی شرائط بھی پوری کردی گئی ہیں اور (پاکستان) پورا بقیہ منظور شدہ کوٹہ حاصل کرنے کا مستحق ہے‘۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ دونوں فریقین نے 9ویں جائزے کی تکمیل کے لیے چند روز قبل اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی ایک یادداشت (ایم ای ایف پی) کا تبادلہ بھی کیا تھا۔
تاہم فنڈ کے قوانین کے تحت فوری جائزے نہیں کیے جاتے، خاص طور پر جب پروگرام کی ایک سال کی توسیع 30 جون کو ختم ہو رہی ہے اور اس کی وضاحت کرسٹالینا جارجیوا نے پیرس میں وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی کی تھی۔
آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کی جانب سے پالیسی اقدامات کی تیزی سے تکمیل کو تسلیم کیا ہے، آخری پالیسی فیصلہ جو پاکستان نے ہچکچاہٹ کے ساتھ کیا وہ تھا مرکزی بینک کی شرح سود میں اچانک اضافہ جو اب تک کی بلند ترین سطح 22 فیصد پر ہے حالانکہ فنڈ کا عملہ چاہتا تھا کہ یہ 23 فیصد ہو۔
اس سے قبل آئی ایم ایف کے عملے نے 9 جون کو پیش کیے گئے اصل بجٹ پر اعتراضات اٹھائے تھے لیکن اب اس نے تصدیق کی ہے کہ نظرثانی شدہ بجٹ بشمول اضافی ٹیکس، اخراجات میں کٹوتی، ترسیلات زر کے لیے ایمنسٹی اسکیم کے خاتمے وغیرہ نے پروگرام کی ضروریات کو پورا کردیا ہے۔
دو آپشنز میں نویں جائزے کے تحت ایک ارب ڈالر کا اجرا شامل ہے لیکن جب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے منظوری دے دی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی 2 اقساط کے اجرا کے امکان کے بغیر پروگرام ختم ہوگیا ہے۔
تاہم یہ حکومت کے لیے ترجیحی آپشن نہیں ہے کیونکہ اس طرح پاکستان، آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے منظور کردہ ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے کوٹے سے محروم ہو جائے گا۔
زیر غور دوسرا آپشن یہ ہے کہ آئندہ 15 روز (جولائی کے وسط تک) کے اندر نویں جائزے (ایک ارب 10 کروڑ ڈالر) کے مساوی اجرا کے ساتھ ایک نئے قلیل مدتی انتظام میں داخل ہوں جس کے بعد 50، 50 کروڑ ڈالر کے 2 مزید جائزے کیے جائیں۔
اس سے مارکیٹس میں استحکام کا پیغام جائے گا کیونکہ موجودہ حکومت دو ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنی مدت پوری کر لے گی اور انتخابات کے بعد نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے تک اس کی جگہ نگراں سیٹ اَپ نے لینی ہے۔
دونوں آپشنز کے لیے دونوں فریقین کو اعتماد سازی کے لیے 30 جون تک عملے کی سطح کے معاہدے کا اعلان کرنا ہوگا جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری آئندہ ہفتے یا اس کے بعد مل سکتی ہے۔
باخبر ذرائع نے کہا کہ ’ہمارے لیے ترجیح یہ ہے کہ ڈھائی ارب ڈالر کی پوری رقم کو محفوظ کیا جائے، حکام نے اسٹینڈ بائی انتظام کے لیے بھاری رقم رکھی تھی لیکن شاید یہ بہت زیادہ مانگ رہے تھے‘۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو آنے والے قیمتوں کے جائزے میں پیٹرولیم لیوی میں 5 روپے فی لیٹر تک اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے تاکہ سال کے لیے پیڑولیم لیوی کو کم از کم اوسطاً 55 روپے فی لیٹر کیا جا سکے اور یکم جولائی سے بجلی کے بنیادی نرخوں کو 5-8 روپے فی یونٹ بڑھانے کے لیے تیز رفتار ریگولیٹری عمل کا عہد کریں چاہے اس کی منظوری میں چند ہفتے لگ جائیں۔
اسی دوران پاکستان کو آئندہ چند روز میں دوست عرب ممالک کی جانب سے مالی سال کے اختتام پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی توقع ہے۔
متعلقہ پیش رفتوں میں آئی ایم ایف کے عملے کے مشن نے بھی پاکستان کی محنت اور فوری پالیسی اقدامات کا اعتراف کیا۔
ایک مثبت بیان میں پاکستان میں مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر نے کہا کہ ’آئی ایم ایف ٹیم نے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھی جس کا مقصد فنڈ سے مالی امداد کے بارے میں جلد ہی ایک معاہدے تک پہنچنا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے تعاون سے معاشی اصلاحاتی پروگرام کے مطابق پالیسیوں کو مزید ہم آہنگ کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں جس میں بجٹ کی منظوری بھی شامل ہے جس سے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کیا گیا ہے‘۔
اس کے علاوہ بلند سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کی منڈی کے کام کو بہتر بنانے اور افراط زر اور کمزوروں کو متاثر کرنے والے ادائیگی کے توازن کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی سخت کرنے کے اقدامات کیے گئے۔