اسلام آباد (سچ خبریں)پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت پر زور دیا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ممکنہ طبی بحران سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کا اعلان کیا جائے اور طبی ماہرین کا ایک پینل قائم کریں تاکہ وبائی امراض سے بچنے کے لیے قومی پالیسی تشکیل دی جائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مطالبہ پیما کے مرکزی جنرل سیکریٹری پروفیسر محمد طاہر نے اسلام آباد میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
پروفیسر محمد طاہر نے تجویز دی کہ حکومت کو اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے عام بیماریوں کے علاج اور روک تھام کی ضروری سہولیات سے لیس فیلڈ ہسپتال قائم کرنے چاہئیں۔
انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ہر ضلع میں کنٹرول سینٹرز قائم کیے جائیں جن کے ذریعے مشترکہ کوششوں کے لیے این جی اوز کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا جا سکے۔
پروفیسر محمد طاہر نے کہا کہ پیما کے رضاکار جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس کام کو 2 مراحل میں تقسیم کیا ہے، پہلے مرحلے میں موبائل کلینک اور میڈیکل کیمپ فعال کیے گئے ہیں، دوسرے مرحلے میں ہم ریفرل سسٹم کے ذریعے مختلف امراض کے ماہر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کریں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک 50 سے زائد مقامات پر 248 میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں تقریباً 496 ڈاکٹروں اور 744 پیرا میڈیکس نے اپنی خدمات فراہم کیں، 74 ہزار 727 سے زائد مریضوں کو مفت علاج اور ادویات فراہم کی گئیں‘۔
پروفیسر محمد طاہر نے کہا کہ ’اب ہم نے اس قدرتی آفت کے وسیع اثرات کے پیش نظر ان طبی امدادی سرگرمیوں کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، آنے والے روز میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا (ایمانا) کے تعاون سے سیلاب زدہ علاقوں میں طبی ماہرین کے کیمپ لگائے جائیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کے لیے خصوصی موبائل ہسپتال متاثرہ اضلاع میں ماہر امراض چشم کی نگرانی میں بھیجے جارہے ہیں، جن میں الٹراساؤنڈ کی سہولت موجود ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کے پھیلنے کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن حکومت کے پاس صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
پیما کے مرکزی جنرل سیکریٹری نے کہا کہ ’اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم حکومت اور دیگر تنظیموں کی توجہ ممکنہ طبی بحران کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نہ صرف وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں بلکہ آلودہ پانی کی وجہ سے ہیضہ، اسہال، گیسٹرو اور ٹائیفائیڈ وبائی شکل اختیار کر رہے ہیں جبکہ طویل عرصے سے جمع پانی کے سبب ڈینگی اور ملیریا میں اضافہ ہو رہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بیماریاں متاثرہ علاقوں میں اموات میں اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہیں، سانپ کے کاٹنے کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافے کا خدشہ ہے، صفائی ستھرائی کی کمی کی وجہ سے خارش اور فنگل انفیکشن جیسی جلد کی بیماریاں بھی عام ہوگئی ہیں‘۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ دائمی امراض میں مبتلا بزرگوں کے علاج میں رکاوٹیں اور ادویات فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اموات کی تعداد موجودہ شرح سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔