سیالکوٹ ( سچ خبریں) سیالکوٹ واقعے سے متعلق پولیس کی جانب سے مزید انکشافات سامنے آگئے پریانتھا کمارا پر حملہ کرنے والے ہجوم کے پاس پیٹرول کی بوتلوں کا انکشاف ہوا ہے ملزمان نے پہلے سے ہی فیکٹری کو آگ لگانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی یہاں تک کہ پولیس پارٹی کو بھی دھمکی ملی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سیالکوٹ میں فیکٹری کے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کے قتل کیس کی تحقیقات میں سامنے آنے والے مزید انکشافات میں پولیس نے بتایا ہے کہ پریانتھا کمارا پر حملہ کرنے والے ہجوم کے پاس پیٹرول کی بوتلیں تھیں‘ سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری مینیجر کو قتل کرنے کے بعد ملزمان نے اس کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا۔
اس کے علاوہ ملزمان نے فیکٹری کو آگ لگانے کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی اور جس وقت پولیس اہلکار فیکٹری میں داخل ہوئے تو اس وقت ہجوم فیکٹری مالک شہباز بھٹی پر بھی تشدد کر رہا تھا ، اس دوران ہجوم نے پولیس پارٹی پر بھی پیٹرول پھینک کر آگ لگانے کی دھمکی دی ، سری لنکن شہری کے قتل کے واقعے میں گرفتار کیے گئے 13 مرکزی ملزمان کو ایک روزہ سفری ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا ہے ، ملزمان کو کل گوجرانوالہ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
دوسری جانب پولیس نے سیالکوٹ واقعے میں ملوث مزید 6 مرکزی ملزمان گرفتار کرلیا ‘ گرفتاریوں کی تعداد 124 ہوگئی ، پولیس ترجمان کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں فیکٹری کے سری لنکن مینیجر کے قتل میں ملوث ملزمان کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران مزید 6 مرکزی ملزمان گرفتار کیا گیا ہے ، جس کے لیے سائنٹفک انداز سے تفتیش کو آگے بڑھایا گیا۔
سی سی ٹی سی فوٹیج اور موبائل کالز ڈیٹا سے گزشتہ 12 گھنٹوں میں پولیس نے مزید 6 مرکزی کرداروں کا تعین کرکے انہیں گرفتار کرلیا ، یہ ملزمان اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے گھروں میں گرفتاری کے ڈر سے چھپے ہوئے تھے۔
قبل ازیں انسپکٹر جنرل پنجاب راؤ سردار نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے میں پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، 160 فوٹیجز کی روشنی میں گرفتاریاں کی جائیں گی، سیالکوٹ کے افسوسناک واقعے کا آغاز 10 بج کر2 منٹ پرہوا جب کہ 11 بجے تک پریا نتھاکمارا کی ہلاکت ہوچکی تھی۔
پولیس11 بج کر 28 منٹ پر جائے وقوعہ پر پہنچی ، واقعے کی اطلاع ملنے پر مقامی پولیس نے فوری طورپر حکام کوآگاہ کیا ، ڈی پی او اور ایس اپی پیدل چل کر وہاں پہنچے، واقعے کے بعد راستے بلاک تھے اس میں پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، اگر واقعے میں پولیس کی کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا جائزہ لیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ 13 مرکزی ملزمان میں وہ لوگ ہیں جو ادھر میڈیا کو بھی انٹرویوز میں بیان حلفی دیتے رہے ، واقعے میں سارے ملزم تو قاتل نہیں ہر ملزم کا کردار طےکیا جائے گا اور تفتیش میں طے کریں گے کس ملزم کا کیا رول تھا ، مزید گرفتاریوں کے لیے بھی 10 ٹییمیں بنائی گئی ہیں ، واقعے کے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں ، آر پی او اور ڈی پی او 24 گھنٹے چھاپوں کی نگرانی کررہے ہیں۔