اسلام آباد:(سچ خبریں) عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اب صدر مملکت سے بھی منظور شدہ ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔
خیال رہے کہ آئین کی دفعہ 75(2) میں کہا گیا ہے ’اگر صدر نے کوئی بل پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا ہو تو اس پر پارلیمنٹ مشترکہ اجلاس میں دوبارہ غور کرے گی اور اگر اسے مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں کے موجود ارکان کی اکثریت رائے دہی اور رائے شماری سے ترمیم کے ساتھ یا بلا ترمیم دوبارہ منظور کرلیں تو اسے دستور کی اغراض کے لیے دونوں ایوانوں سے منظور شدہ تصور کیا جائے گا اور اسے صدر کو پیش کیا جائے گا اور صدر اس کی منظوری 10 دن میں دیں گے، اس میں ناکامی پر مذکورہ منظوری دی گئی تصور ہوگی‘۔
اسمبلی سیکریٹریٹ کے بیان کے مطابق اس قانون پر صدر کی منظوری کا اطلاق 21 اپریل سے ہو گا۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سپریم کورٹ ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے یہ قرار دے چکی ہے کہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔
اس بل کی منظوری وفاقی کابینہ نے 28 مارچ کو دی تھی جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی اور 30 مارچ کو سینیٹ سے اس کو منظور کیا گیا تھا اور حتمی منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا گیا تھا۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔
بعدازاں 10 اپریل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے کچھ ترامیم کے ساتھ پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔
اس کے بعد اسے دوبارہ صدر مملکت کی منظوری کے لیے بھیجا گیا اور آئین کے مطابق 10 روز کے اندر بل پر دستخط نہ ہونے کی صورت میں وہ از خود منظور شدہ قانون بن جاتا ہے۔
تاہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بل کی منظوری کے 3روز بعد ہی ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق بل 2023 کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے۔
عدالت عظمیٰ کے اس پیشگی اقدام کو حکمراں اتحاد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل نے بھی 8 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھایا اور اس حکم کو ’متنازع اور یکطرفہ‘ قرار دیا۔
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے منظور کیے گئےاس قانون میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔