اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب دور کی بات نہیں ہے، اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ موجودہ اور بڑھتا ہوا بحران ہے جو کہ بالخصوص عالمی جنوب کے ممالک کے لیے خطرہ ہے، عالمی جنوب بشمول پاکستان نے عالمی اخراج میں سب سے کم حصہ ڈالا لیکن ہمیں اس کا سب سے زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔
کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ڈان میڈیا گروپ کے زیراہتمام عالمی موسمیاتی کانفرنس ’بریتھ پاکستان‘ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ پاکستان موسمیاتی تباہی کے تناظر میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور اس کا شمار خطرے سے سب سے زیادہ دوچار 5 ممالک میں ہوتا ہے، جسے شدید موسمی حالات، گلیشیئرز کے پگھلاؤ، پانی کی قلت اور تباہ کن سیلابوں کا سامنا ہے۔
سینئر پیونی جج نے کہا کہ مجھے سیلابوں اور تباہی کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ 2022 کے سیلاب نے ایک تہائی ملک کو ڈبو دیا تھا،3 کروڑ 30 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے اور ملک کو 30 ارب ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہندوکش ہمالیہ گلیشئرز کے دامن میں واقع ہے جو کہ خطرناک تیزی سے پگھل رہے ہیں اور دریائے سندھ کے لیے خطرہ بن رہے ہیں جو کہ پاکستانی زرعی نظام کی لائف لائن ہے اور ملک کو پانی کے سنگین بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، شدید ہیٹ ویوز،خشک سالی، جیکب آباد میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے کچھ علاقوں کو ناقابل رہائش بنادیا ہے، صحت کو درپیش خطرات بڑھ رہے ہیں، توانائی اور پانی کے وسائل میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً 40 فیصد افرادی قوت کو روزگار دینے والی زراعت غیر یقینی مون سون کا شکار ہے جس کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ، نقل مکانی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے مزید کہا کہ ’ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عالمی جنوب کو دہری ناانصافی کا سامنا ہے، پہلا ماحولیاتی اثرات کا غیر متناسب بوجھ اور دوسرا اسٹرکچرل رکاوٹیں ہیں جو مؤثر طریقے سے جواب دینے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے’ ماحولیاتی انصاف کی تشکیل کے لیے درکار 9 ستونوں“ کی فہرست پیش کی، پہلا “موافقت، نقصان اور تباہی پر مضبوط توجہ’ تھا, تخفیف ہمارا فوری مسئلہ نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوسرا، ایک مضبوط، فعال، باخبر عدلیہ اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایک آزاد عدلیہ بھی ناگزیر ہے، جو یہاں تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
انہوں نے جن دیگر نکات کا ذکر کیا ان میں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ موسمیاتی مالیات، قدرتی مالیات اور موسمیاتی سائنس آسانی سے دستیاب ہو، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پالیسیاں ثبوت پر مبنی ہوں، اور اتحاد قائم کرنے کے لیے ماحولیاتی سفارت کاری پر توجہ دی جائے۔
انہوں نے جس ساتویں ”ستون“ پر روشنی ڈالی وہ بیرونی مدد کا انتظار کرنے کے بجائے مقامی حل میں سرمایہ کاری کرنا تھا جبکہ آخری دو نکات ماحولیاتی احتساب اور ماحولیاتی عدالتیں تھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی کہ عالمی شمال کی توجہ اخراج پر قابو پانے پر مرکوز ہے جبکہ عالمی جنوب کا کینوس بہت وسیع ہے،یہ تبدیلی عالمی جنوب کے لیے ماحولیاتی انصاف کو ایک کثیر شعبہ جاتی مسئلہ بناتی ہے۔
انہوں نے کہاکہماحولیاتی انصاف کا دائرہ اب پانی کی حفاظت، زراعت، فوڈ سیکورٹی، آفات کے خطرے میں کمی، صحت، شہری منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے، ماحولیاتی نظام ،تنوع، توانائی، مالیات اور آب و ہوا تک وسیع اور مکمل طور پر بدل چکا ہے ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آج ماحولیاتی انصاف کو، عدلیہ کس طرح محسوس کرتی ہے، یہ ماحولیاتی مالیات ہے، مناسب فنڈنگ کے بغیر موافقت ایک حقیقت کے بجائے ایک خواہش ہے۔
انہوں نے کہا کہ’آب و ہوا کی تباہی کا خمیازہ برداشت کرنے کے لئے سب سے زیادہ کمزور ملک کے طور پر ہم نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد جلد ہی محسوس کیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ماحولیات کی مالی اعانت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فنانسنگ میں تاخیر صرف پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ انصاف سے انکار ہے، عالمی جنوب کے لیے موسمیاتی فنانسنگ کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے خود کو ڈھالنے، بحالی اور تعمیر نو کی صلاحیت کوئی استحقاق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ہمارے آئین اور بین الاقوامی فریم ورک میں زندگی اور وقار کے حق میں اب آب و ہوا کی مالی اعانت کا حق شامل ہونا چاہیے، اس کے بغیر،ہمارے لوگ ایک ایسے بحران کے خلاف بے بس رہ جاتے ہیں جو انہوں نے پیدا نہیں کیا۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف جنگ اکیلے نہیں لڑی جاسکتی۔
احسن اقبال نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے اس عالمی مسئلے پر آواز اٹھانے، اپنے اخبار میں خصوصی سپلیمنٹ شائع کرنے اور آج کی اس کانفرنس کے انعقاد پر ڈان میڈیا گروپ اور ان کے شراکت داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کی اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ماہرین ایک اہم عالمی مسئلے موسمیاتی تبدیلی کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، یہ وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات کرنے کا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود پاکستان کو اس تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2 سال قبل ہمارے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کے سبب ڈوب گیا تھا، 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا، 1700 افراد کی جانیں گئیں، 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی بڑ اخطرہ ہے، جب کہ ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ اسموگ کا ہے، خراب ایئر کوالٹی کے سبب لوگوں کی سحت اثر انداز ہو رہی ہے۔
آخر میں احسن اقبال نے اس امر پر زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کی یہ لڑائی اکیلے نہیں لڑ سکتے اس میں مزید ممالک کے تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ اینڈ ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ کا کہنا تھا کہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے خطے کو کیا نقصانات بھگتنا پڑ رہے ہیں، غیر معمولی گرمی، شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور موسمی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے 2022 کے سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں پاکستان نے ایک سنگین سیلاب کا سامنا کیا، اس سیلاب کی وجہ سے 30 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آگیا تھا، جو پوری دنیا کے الیے الارمنگ کال ہے، تاہم کاربن کے اخراج کا سلسلہ جاری ہے۔
محمد یحییٰ نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے، دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کا کاربن کے اخراج میں 80 فیصد حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خطے کے دیگر ممالک خاص طور پر پاکستان کا کاربن کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود وہ متاثرہ ترین ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اکثر موسمیاتی ناانصافیوں کے حوالے سے سنتے ہیں لیکن اس ملک کی کئی کمیونٹیز اس حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے ’کوپ29‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو 30 ارب دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، تاہم ماضی کی وعدہ خلافیوں کے بعد ہم دیکھیں گے کہ اس مرتبہ کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے لیے ایک معقول بجٹ کا تقاضا کرتے ہیں، جب کہ ماحولیاتی آلودگی بھی اب ختم ہونی چاہیے، ہمیں موسمیاتی فنانس کا مطالبہ کرنا چاہیے جو معقول، قابل رسائی، مناسب اور منصفانہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ کارپوریٹ اور قومی استثنیٰ کا دور بھی ختم ہونا چاہیے، ہمارے سیکریٹری جنرل نے آلودگی پھیلانے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس حل کا حصہ بننے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
عالمی بینک میں موسمیاتی تبدیلی کی عالمی ڈائریکٹر ویلری ہکی نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ مرجائیں گے، اگر ہم اس بات کا انتظار کریں گے کہ گلوبل نارتھ کی جانب سےوہ تمام رقم رکھی جائے، جو انہیں اخلاقی طور پر دینی چاہیے۔
پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم موسمیاتی تبدیلی پر این سی کیو جی کے ساتھ آنے میں بہت خوش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 100 ارب ڈالر سے 300 ارب ڈالر تک منتقل ہونے ہیں، یہ بہت خطیر رقم لگتی ہے، تاہم ایسا نہیں ہے، اس کا زیادہ تر حصہ قرض پر مشتمل ہے، یہ گرانٹ نہیں ہے، اس میں سے زیادہ تر پہلے سے ہی موجود ہے، یہ اضافی نہیں ہے۔
آخر میں ویلری ہکی کا کہنا تھا کہ میں تجویز کرتی ہوں کہ اس کانفرنس کا نام ’بریتھ پاکستان‘ سے تبدیل کر کے ’لیڈ پاکستان‘ کیا جائے۔
تقریب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خیبر پختونخوا کے حوالے سے دہشت گردی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا، لیکن آج میں یہاں اپنے صوبے اور ہمارے لوگوں کی جانب سے ملک کے لیے دی جانے والی خدمات کو پیش کرنے کے لیے آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کے پی کی 37 فیصد زمین جنگلات پر مشتمل ہے، اور یہ پاکستان کے جنگلات کا 40 سے 45 فیصد ہے، کاربن سنک کے طور پر پاکستان سے 50 فیصد کاربن نکال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک کی تحقیق کے مطابق اتنے جنگلات کے لیے ہمیں سالانہ کم از کم 332 ارب روپے درکار ہیں، میں اتنا پیسہ لگانے کے قابل نہیں ہوں، لیکن کم از کم میرا صوبہ اور میرے لوگ اتنی بڑی رقم کا کام کرنے کے قابل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیڈرعمران خان نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کی حمایت کی ہے، 2017 سے اب تک ہم نے اپنے جنگلات کے رقبے کو بہتر بنانے اور بڑھانے کے لیے خیبر پختونخوا میں 67 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔
اس حوالے سے بین الاقوامی معیار 25 فیصد ہے، لیکن (خیبر پختونخوا) اب 26 فیصد خرچ پر ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بین الاقوامی معیارات حاصل کر لیے ہیں، اور اس سے بالاتر ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’جہاں تک پاکستان کی پائیداری اور ہماری مجموعی معاشی صورتحال کا تعلق ہے، تو اس کا انحصار 2 مسائل اور اس بات پر ہوگا کہ ہم ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔
انہوں نے دونوں مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ایک آبادی پر قابو پانا اور آبادی کا انتظام ہے، جب کہ بدقسمتی سے ہم اب بھی 2.5 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ’کیا اور کیوں‘ جانتے ہیں، اس حوالے سے پالیسیز کی کمی نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد کیسے اور کون کرےگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں ان مسائل کو حل کرنے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت ہے، تاہم اصل اور سب سے بڑا مسئلہ موسمیاتی موافقت ہے۔
ماحولیات کی فنانسنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کوپ 29 میں کسی حد تک اس حوالے سے اقدامات کیے گئے ہیں، جس میں کم از کم 72 کروڑ ڈالر کے نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ طویل غور و خوض کے بعد باکو فنانس کا ہدف تقریباً 300 ارب ڈالر سالانہ اخراجات کے حوالے سے ہے۔
انہوں نے گزشتہ سال باکو میں منعقد ہونے والی کوپ 29 میں طے کیے گئے فنڈز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جتنی رقم مختص کی گئی، ضرورت اس سے 3، 4 گنا زیادہ رقم کی تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سابق گورنر شمشاد اختر نے کلائمیٹ فنانس کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا ’جنون‘ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کے لیے 2050 تک سالانہ 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جب تک ہم عالمی برادری اور عالمی منظرنامے کو درپیش اس مہلک خطرے سے نہیں نمٹیں گے، ہم کہیں بھی نہیں جا پائیں گے، اور ہمیں معاشی خلل کا سامنا کرنا پڑے گا۔