اسلام آباد(سچ خبریں)اقتصادی سروے پاکستان برائے سال 22-2021 میں نشاندہی کی گئی ہے کہ گزشتہ سال تعلیم کے شعبے پر مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا صرف 1.77 فیصد خرچ کیا گیا جبکہ خواندگی کی شرح 63 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سروے میں کہا گیا ہے کہ ‘مالی سال 2021 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی تعلیمی اخراجات جی ڈی پی کے 1.77 (نظرثانی شدہ تخمینہ) فیصد پر رہے، مالی سال 2021 کے دوران تعلیم سے متعلقہ اخراجات میں 9.7 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، جو 901 ارب روپے سے 988 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
شرح خواندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے سروے میں کہا گیا کہ 22-2021 کے دوران پاکستان میں سماجی اور معیار زندگی کی پیمائش کا سروے آبادی اور گھروں کی متوقع مردم شماری 2022 کی وجہ سے نہیں کرایا گیا۔
تاہم لیبر فورس سروے 21-2020 کے مطابق خواندگی کا رجحان 62.8 فیصد ظاہر ہوتا ہے جو 19-2018 میں 62.54 فیصد تھا، اس میں مردوں کی شرح 73 سے 73.4 فیصد جبکہ خواتین کی شرح 51.5 سے 51.95 فیصد ہے۔
دیہی (53.7 فیصد سے 54.0 فیصد) اور شہری علاقوں (76.1 فیصد سے 77.3 فیصد) دونوں میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا۔
سروے رپورٹ کے مطابق صنفی تفاوت بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
سروے میں کہا گیا کہ تمام صوبوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا، پنجاب (66.1 فیصد سے 66.3 فیصد)، سندھ (61.6 فیصد سے 61.8 فیصد)، خیبر پختونخوا (52.4 فیصد سے 55.1 فیصد) اور بلوچستان میں خواندگی کی شرح (53.9 فیصد سے 54.5 فیصد) ہے۔
سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 2022 کے لیے ترقیاتی بجٹ میں وفاقی وزارت تعلیم کے 24 جاری اور 4 نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 9.7 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
خزانہ، دفاع، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، امور کشمیر اور گلگت بلتستان ڈویژنز کے زیر اہتمام تعلیم سے متعلق 6 جاری اور 3 نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2.8 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی گئی۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے گول 4 کو حاصل کرنے کے ہمارے عزم کے تحت معیاری تعلیم کے حوالے سے تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔
سروے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ ملک کی تعلیم میں تفاوت کو کم کرنے کے لیے ایک واحد قومی نصاب متعارف کرایا گیا ہے۔
سروے کے مطابق پاکستان کی خواندگی، اندراج اور دیگر تعلیمی اشاریے پچھلے دو سال میں بہتر ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ حکومت مؤثر پالیسی مداخلتوں اور وسائل کی تقسیم کے ذریعے تعلیم کے معیار اور کوریج دونوں کو بہتر بنانے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے، لیکن تعلیمی شعبے میں مطلوبہ اصلاحات اور بہتری نجی شعبے کی فعال شراکت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔