سچ خبریں: چین کا کہنا ہے کہ اس کا بغیر عملے والا خلائی جہاز کامیابی کے ساتھ چاند کے دور حصے پر اتر گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کوئی بھی جانے کی کوشش نہیں کرتا۔
چائنہ نیشنل سپیس ایڈمنسٹریشن (سی این ایس اے) نے بتایا کہ چینگ ای 6 اتوار کی صبح بیجنگ کے وقت کے مطابق 06:23 بجے چاند کے جنوبی قطب-آٹکن کے بیسن میں اترا۔
تین مئی کو لانچ کیے گئے اس مشن کا مقصد تاریخ میں پہلی بار اس خطے سے نادر و قیمتی چٹان اور مٹی کو اکٹھا کرنا ہے۔
یہ تحقیقاتی خلائی گاڑی چاند کی قدیم ترین چٹانیں اس کے قطب جنوبی پر واقع ایک بڑے گڑھے سے نکال سکتی ہے۔
اس خلائی گاڑی کی لینڈنگ کے بارے میں خدشات تھے کیونکہ خلائی جہاز کے چاند کے دور والے حصے میں پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ رابطہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ چین واحد ملک ہے جس نے اس سے قبل بھی یہ کارنامہ انجام دیا ہے اور یہ سنہ 2019 میں اپنا خلائی جہاز چینگ 4 اس علاقے میں لینڈ کروانے میں کامیاب ہوا تھا۔
وینچانگ خلائی لانچ سینٹر سے لانچ ہونے کے بعد چینگ ای 6 خلائی جہاز چاند کے گرد چکر لگا رہا تھا تاکہ وہ محفوظ طور پر لینڈ کر سکے۔
اس کے بعد مشن کا لینڈر مدار میں جہاز سے الگ ہو کر چاند کے اس طرف نیچے آ گیا جس کا رخ زمین سے مستقل طور پر دور رہتا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے کہا کہ لینڈر کے چاند کی سطح پر اترنے کے دوران رکاوٹوں کا پتہ لگانے کے لیے ایک از خود اور خود مختار بصری رکاوٹ سے بچنے کے نظام کا استعمال کیا گیا، جس میں ایک روشنی والا کیمرا چاند کی سطح کی چمک اور تاریکی کی بنیاد پر نسبتاً محفوظ لینڈنگ والے حصے کا انتخاب کرتا ہے۔
لینڈر محفوظ لینڈنگ ایریا سے تقریباً 100 میٹر (328 فٹ) اوپر منڈلا رہا تھا اور سست عمودی نزول سے پہلے لیزر تھری ڈی سکینر کا استعمال کر رہا تھا۔
سی این ایس اے نے کہا کہ آپریشن کو کیوکیاو-2 ریلے سیٹلائٹ سے تعاون حاصل تھا۔
چین کے سرکاری میڈیا نے اس کامیاب لینڈنگ کو ایک ‘تاریخی لمحہ’ قرار دیا۔
سرکاری نشریاتی ادارے نے کہا کہ جب چینگ 6 لینڈنگ کرافٹ اتوار کی صبح چاند پر اترا تو ‘بیجنگ ایرو سپیس فلائٹ کنٹرول سینٹر میں تالیاں گونجیں’۔
سی این ایس اے نے کہا کہ لینڈر کو سطح سے مواد اکٹھا کرنے میں تین دنوں تک کا وقت لگے گا اور یہ کہ اس مشن میں بھی ‘انجینئرنگ کی بہت سی ایجادات، اعلی خطرات اور دوسری مشکلات’ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مانچسٹر یونیورسٹی میں قمری ارضیات میں مہارت رکھنے والے پروفیسر جان پرنیٹ فشر بتاتے ہیں: ‘ہر کوئی بہت پرجوش ہے کہ ہم ان چٹانوں کو دیکھ سکتے ہیں جو پہلے کسی نے نہیں دیکھے ہوں گے۔’
انھوں نے امریکی مشن اپالو اور پچھلے چینی مشنوں کے نتیجے میں چاند کی سطح سے واپس لائی گئی چاند کی دوسری چٹانوں کا تجزیہ کیا ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ چاند کے بالکل مختلف علاقے سے چٹان کا تجزیہ کرنے کا موقع سیاروں کی تشکیل کے بارے میں بنیادی سوالات کے جواب دے سکتا ہے۔
اب تک جمع کی گئی زیادہ تر چٹانیں آتش فشاں سے بنی ہوئی ہیں اور اس قسم کی چٹانیں ہمین آئس لینڈ یا ہوائی میں مل سکتی ہیں۔
لیکن دور کی طرف موجود مواد کی کیمسٹری (کیمیائی اجزا) مختلف ہوگی۔
پروفیسر نے کہا کہ ‘اس سے ہمیں ان بڑے سوالات کا جواب دینے میں مدد ملے گی، جیسے سیارے کیسے بنتے ہیں، کرسٹ (پرتیں) کیوں بنتے ہیں، نظام شمسی میں پانی کی اصل کیا ہے؟ وغیرہ۔’
سی این ایس اے کے مطابق مشن کا مقصد ڈرل اور مکینیکل بازو کا استعمال کرتے ہوئے تقریبا دو کلو مواد اکٹھا کرنا ہے۔
چاند کے قطب جنوبی– ایٹکن بیسن ایک بڑا سا گڑھا ہے جو نظام شمسی میں اب تک معلوم سب سے بڑا گڑھا ہے۔
پروفیسر پرنیٹ فشر کا کہنا ہے کہ وہاں سے ملنے والے مواد پر تحقیقات چاند کے پردے کے اندر گہرائی میں موجود مواد کا پتہ دے سکتی ہے۔
چاند کا جنوبی قطب قمری مشن میں اگلی سرحد ہے۔ کئی ممالک اس خطے کو سمجھنے کے خواہشمند ہیں کیونکہ اس میں برف ہونے کا خاصا امکان ہے۔
سائنسی تحقیق میں اگر یہ پتا چلتا ہے کہ وہاں پانی ہے یو یہ چاند پر کامیابی کے ساتھ انسانی بنیاد قائم کرنے کے امکانات کو نمایاں طور پر بڑھا دے گی۔
اگر مشن کامیاب ہو جاتا ہے لینڈر واپس کرافٹ سے منسلک ہو جائے گا اور ایک خصوصی واپسی کیپسول میں موجود قیمتی نمونوں کے ساتھ زمین پر واپس آئے گا۔
مواد کو خاص حالات میں رکھا جائے گا تاکہ اسے ہر ممکن حد تک قائم رکھنے کی کوشش کی جا سکے۔
چین میں سائنسدانوں کو چٹانوں کا تجزیہ کرنے کا پہلا موقع دیا جائے گا اور بعد میں دنیا بھر کے محققین بھی اس کے لیے درخواست دے سکیں گے۔
یہ دوسرا موقع ہے جب چین نے چاند سے نمونے لینے کا مشن شروع کیا ہے۔
سنہ 2020 میں چینگ فائیو چاند کے قریب کی طرف اوشینس پورسیلارم نامی علاقے سے 1.7 کلوگرام مواد واپس لایا تھا۔
چین رواں دہائی میں مزید تین مشنوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور یہ سب بغیر انسان والے مشن ہیں۔ اس کا مقصد چاند پر پانی کی تلاش ہے اور اس کے ساتھ وہ وہاں مستقل اڈہ قائم کرنے کے لیے تحقیقات کر رہا ہے۔
بیجنگ کے اس بڑے وسیع منصوبے کا مقصد سنہ 2030 کے قریب ایک چینی خلاباز کو چاند پر چلتے دیکھنا ہے۔
دوسری امریکہ بھی خلابازوں کو چاند پر دوبارہ بھیجنا چاہتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کا مقصد سنہ 2026 میں اپنا آرٹیمیس 3 مشن شروع کرنا ہے۔