سچ خبریں:ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے نے عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، اگرچہ اس منصوبے کی تمام تفصیلات ابھی واضح نہیں ہوئیں، لیکن اس کے عمومی خدوخال ہی اسے ایک متنازع اور قابل مذمت منصوبہ بنانے کے لیے کافی ثابت ہوئے ہیں۔
1- ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی تفصیلات
ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ غزہ کے کنٹرول کی ذمہ داری سنبھالے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا امریکہ غزہ کے پناہ گزینوں کو قبول کرے گا ؟
اس منصوبے کے تحت، امریکہ غزہ میں فوجی آپریشن کرے گا، وہاں موجود دھماکہ خیز مواد اور غیر استعمال شدہ اسلحہ کو تلف کرے گا، تباہ شدہ عمارتوں کی بحالی، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور اقتصادی ترقی کے اقدامات کرے گا تاکہ مقامی آبادی کے لیے روزگار اور رہائش کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔
2- غزہ کے باشندوں کے مستقبل کے بارے میں ٹرمپ کا نظریہ
ٹرمپ کے مطابق، فلسطینی باشندوں کو غزہ سے نکال کر مصر اور اردن میں آباد کیا جائے گا۔
تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا فلسطینی اس منصوبے کو قبول کریں گے یا نہیں۔ مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک پہلے ہی اس تجویز کو مسترد کر چکے ہیں، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے غزہ کی نسلی تطہیر کی کوشش قرار دے رہی ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک بھی فلسطینیوں کو پناہ دینے پر راضی ہو سکتے ہیں، اور اس سلسلے میں خلیجی ممالک کو مالی اخراجات برداشت کرنے چاہئیں۔
3- کیا ٹرمپ اس منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے فوجی کارروائی کریں گے؟
ٹرمپ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ ہر وہ اقدام کرے گا جو ضروری ہوگا۔ اگر فوجی مداخلت درکار ہوئی، تو امریکہ غزہ میں فوجی دستے تعینات کرے گا اور اس خطے کو مکمل کنٹرول میں لے کر ترقیاتی منصوبے شروع کرے گا، انہوں نے کہا کہ اس سے پورا مشرق وسطیٰ فخر محسوس کرے گا!
4- کیا ٹرمپ دو ریاستی حل کے حامی ہیں؟
امریکہ روایتی طور پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی حمایت کرتا آیا ہے، جس کے تحت فلسطین کو ایک محدود خودمختاری دی جانی تھی۔
تاہم، جب ٹرمپ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے واضح جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ مسئلہ دو ریاستوں یا ایک ریاست کا نہیں، بلکہ لوگوں کو زندگی گزارنے کا موقع دینا ہے، کیونکہ غزہ موجودہ حالت میں ایک جہنم بن چکا ہے۔
5- ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ میں کون رہے گا؟
ٹرمپ نے ایک حیران کن بیان میں کہا کہ غزہ میں دنیا کی مختلف قومیں آباد ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بھی وہاں رہ سکتے ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ اپنے گھروں میں رہیں گے یا ان کی حیثیت کسی اور طریقے سے طے کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا امریکہ غزہ کے پناہ گزینوں کو قبول کرے گا ؟
یہ منصوبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فلسطینی مزاحمتی گروہوں اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات جاری ہیں، تاہم ان مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز اب تک نہیں ہو سکا۔