سچ خبریں: اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ اس سال پانچ سال سے کم عمر کے 1.1 ملین افغان بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جو کہ 2018 میں جاری کردہ تعداد سے تقریباً دوگنا ہے۔
افغانستان کے عوام نہ صرف معاشی بحران سے دوچار ہیں بلکہ ملک کو دہائیوں میں بدترین خشک سالی کا سامنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق 2021 کے آخر تک افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے تقریباً نصف غربت کی زندگی گزار رہے تھے جب کہ 2022 کے وسط تک یہ تعداد ملک کی آبادی کا 97 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے، اقوام متحدہ کے امدادی ادارے انتباہات کے باوجود افغانستان کی صرف 38 فیصد آبادی تک امداد پہنچانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
اگلے چھ مہینوں میں یہ تعداد 8 فیصد تک گر جائے گی، کیونکہ افغانستان کو 4.4 بلین ڈالر کی امداد میں سے صرف 601 ملین ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب برطانیہ میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تقریباً ایک کروڑ بچے بھوک سے نبرد آزما ہیں۔
سیو دی چلڈرن نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یوکرائن کی جنگ اور مسلسل خشک سالی کے نتیجے میں افغانستان میں تقریباً 9.6 ملین بچے روزانہ خوراک کی مسلسل فراہمی سے قاصر ہیں۔
رپورٹ میں افغان بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری طور پر خوراک کی امداد کا مطالبہ کیا گیا، لیکن مزید کہا گیا کہ صرف امداد ملک میں بھوک کے بدترین بحران کا جواب نہیں ہے۔