سچ خبریں: جنگ کے آغاز کے تقریباً دو ماہ گزرنے کے بعد بھی نہ صرف اسرائیل کو کوئی ہدف حاصل نہیں ہوسکا ہے بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ جنگ غزہ کی پٹی میں موجود مزاحمتی قوتوں کے ہاتھ میں ہے جس کی سرگوشیاں صیہونی میڈیا میں بھی سنائی دے رہی ہیں یہاں تک صیہونی اہم حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ جنگ کی کمانڈ یحییٰ سنور کے ہاتھ میں وہی ہمارے لیے فیصلہ کرتے ہیں ،نیتن یاہو اور اس کی جنگی کابینہ نہیں!
غزہ جنگ اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز سے ہی امریکی اور صہیونی حلقوں نے حماس اور غزہ کی پٹی کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا،ریاستہائے متحدہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے خطے کے دورے کے دوران اور صیہونی، اردنی اور مصری حکام سے ملاقاتوں میں غزہ کے باشندوں کو صحرائے سینا میں منتقل کرنے کے معاملے پر بات کی جس کی مصری حکومت نے مخالفت کی ۔
یہ بھی پڑھیں: طوفان الاقصی نے صیہونی معیشت کے ساتھ کیا کیا؟
اس بات کو اس وقت پیش کرنا جب کہ جنگ جاری تھی اور اس کا مستقبل ابھی تک غیر واضح تھا، اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کو یقین تھا کہ صہیونی فوج غزہ میں اسلامی مزاحمت کو تباہ کر دے گی، اور پھر اسے اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ غزہ کی پٹی کے ساتھ کیا کیا جائے،اس پٹی کے 20 لاکھ باشندے کیا کریں گے؟انہوں نے مختلف منظرنامے بھی تجویز کیے، جن میں مکینوں کی مصر منتقلی، اسرائیل ہاتھوں پٹی کا کنٹرول سنبھالنا یا اسے محمود عباس کی خود مختار تنظیم کے حوالے کرنا شامل ہے،ان میں سے ہر ایک منظرنامے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں حائل ممکنہ امکانات اور رکاوٹوں کے بارے میں بھی میڈیا میں بحث شروع ہو گئی ،اب جنگ کے آغاز کے تقریباً دو ماہ گزرنے کے بعد بھی نہ صرف اسرائیل کا کوئی بھی اہداف حاصل نہیں ہو سکا ہے بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ جنگ غزہ کی پٹی میں موجد مزاحمتی قوتوں کے ہاتھ میں ہے جس کی سرگوشیاں صیہونی میڈیا میں بھی سنائی دے رہی ہیں یہاں تک صیہونی اہم حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ جنگ کی کمانڈ یحییٰ سنور کے ہاتھ میں وہی ہمارے لیے فیصلہ کرتے ہیں ،نیتن یاہو اور اس کی جنگی کابینہ نہیں!
اس لیے سوال یہ ہے کہ بلنکن کے اس خطے کے دورے اور حماس اور غزہ کی پٹی کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کا مقصد کیا تھا اور کیا انھیں واقعی اسرائیل کی فتح کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے ان حالات میں غزہ کے مستقبل کے بارے میں سوچا؟ اس سوال کا جواب دو حالتوں سے باہر نہیں ہے: یا تو وہ تمام بحثیں فلسطینیوں اور مزاحمتی قوتوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے ایک قسم کی نفسیاتی کارروائی تھیں۔ یا یہ کہ انہوں نے صورتحال کو سمجھنے میں غلطی کی تھی،بلاشبہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی غلط فہمیوں کی ایک طویل تاریخ ہے اور ماضی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غلط اندازہ انہیں بہت سے معاملات میں ناکامی اور خوفناک نتائج کا باعث بنا ہے، جو یقیناً اس مختصر کالم کے دائرہ سے باہر ہے۔
اگر ہم ان غلطیوں کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں تو ہمیں کم از کم دو عوامل کا ذکر کرنا ہوں گے:
1۔ اول، غلط جگہ پر فخر اور حد سے زیادہ نیز جھوٹی خوداعتمادی۔
2۔ دوم، حساب کتاب میں ایسے عوامل کو شامل کرنے میں ان کی نااہلی جو ان کے لیے نامعلوم اور ناقابل فہم ہیں،جیسا کہ یقین اور ایمان کی مضبوطی، عزت اور شہادت اور ایک نیک مقصد کے لیے مرنے کی تیاری ، میدان میں ان عوامل کے نتائج اور جدوجہد کے دیگر مناظرسے معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل اسرائیل کا نہیں بلکہ غزہ کا ہے۔
صہیونی فوج جو ابتدا میں مزاحمت کو تباہ کرنے اور غزہ کے مکینوں کو صحرائے سینا کی طرف نکالنے کے مقصد سے میدان میں اتری تھی، آخر کار اپنے اہداف کو قیدیوں کے محل وقوع کا پتہ لگانے اور انہیں بغیر کسی بات چیت اور تبادلے کے رہا کرنے تک محدود کردیا لیکن جب یہ مقصد بھی حاصل نہیں کرسکی تو آخر کار وہ حماس کے ساتھ قطر کے ذریعے مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے پر مجبور ہوئی، جو ان کے خیال میں اب بھی ایک دہشت گرد گروہ تھا، اس سے ہٹ کر صیہونی فوج اور انٹیلی جنس آلات پر طوفان الاقصی کے پہلے ہی دن لگنے والی کاری ضربوں جن کی کسی بھی طرح سے مرمت یا تلافی نہیں کی جا سکتی ہے اور یہ کہ اسرائیل کبھی بھی اس قوت کو دوبارہ حاصل نہیں کر سکے گا۔
ان معاملات کو لے کر صہیونی معاشرے کے اندر بہت سے بحران وجود میں آئے ہیں جن میں معاشی اور سماجی مسائل کے علاوہ عدم تحفظ کا احساس اور تاریک مستقبل جس کے نتیجے میں ریورس ہجرت میں تیزی آئی ہے۔
لیکن سب سے بڑے عوامل فوج کی نااہلی اور سیاسی بحران ہیں،
تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موجودہ صیہونی فوج خاص طور پر زمینی فوج پچھلی نصف صدی کی فوج سے بہت مختلف ہے ۔
اس میں حوصلے اور حوصلہ کی کمی ہے اور کئی عوامل بشمول عالمگیریت کے رجحان اور پچھلی دو دہائیوں میں پے در پے ناکامیوں کے زیر اثر، وہ صیہونیت کی وجہ سے لڑنے اور مارے جانے پر اپنا یقین مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔
ادھر سیاسی بحران کے حوالے سے، پانچ قبل از وقت انتخابات اور ہر بار کابینہ کی تشکیل میں ناکامی، اور آخر میں بدترین اور انتہاپسندانہ دھارے کے ساتھ۔ نیتن یاہو کا اتحاد جو صرف مسجد اقصیٰ کی تباہی اور تیسرے ہیکل کی تعمیر نیز آرماجیڈن (آخر زمانہ کی جنگ) اور آزاد کرنے والے مسیحا کے ظہور کے بارے میں سوچتے ہیں ، سیاسی بحران کی اہم ترین وجوہات ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ کے خاتمے کا کیا مطلب ہے؟ صیہونی وزیر کی زبانی
تمام تجزیہ کاروں کے مطابق نیتن یاہو جانے والے ہیں اور منظر نامے پر موجود سیاستدانوں میں سے کوئی بھی سیاسی منظر نامہ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اس صورت حال میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی تقریر جس میں وہ اسرائیل کو مکڑی کے جالے سے بھی کمزور اور عارضی حکومت کہتے ہیں، بہت درست اور منطقی ہے۔ اب اہم سوال جس پر تحقیق کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے اسرائیل کا مستقبل کیسا ہونے والا ہے نہ کہ غزہ کی پٹی کا مستقبل!