سچ خبریں: شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے کہا کہ بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے، اس کے علاوہ عمران خان نے بھی بدھ کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات کا موازنہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے مرضی کے آرمی چیف کی تقرری کی، جو بعد میں اپنے لوگوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔
عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں حالات بنگلہ دیش سے بھی بدتر ہیں، اور ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح بنگلہ دیش کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی صورتحال پر پاکستان کا ردعمل
انہوں نے زور دیا کہ جیسے حسینہ واجد کو ملک سے فرار ہونا پڑا، ویسے ہی فرار کے راستے بند کیے جائیں۔
بنگلہ دیش میں طلبہ کی تحریک جو کہ سرکاری نوکریوں کے مطالبے پر شروع ہوئی تھی، حکومت مخالف پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئی۔ نتیجتاً، 15 سال تک برسرِاقتدار رہنے والی شیخ حسینہ واجد کو سوموار کے روز استعفی دے کر ملک چھوڑنا پڑا۔
اس سارے معاملے میں بنگلہ دیشی فوج کے آرمی چیف وقار الزمان کا مرکزی کردار تھا، جنہوں نے طلبہ کے مطالبات کے تحت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا نگران مقرر کیا اور ساتھ ہی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا سمیت کئی سیاسی مخالفین کو رہا کر دیا۔
عمران خان واحد شخصیت نہیں ہیں جو بنگلہ دیش کے حالات کا موازنہ پاکستان سے کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش سے سامنے آنے والے مناظر کے بعد پاکستان میں گزشتہ سال 9 مئی کو پیش آنے والے واقعات کا ذکر دوبارہ ہونے لگا۔
یہاں تک کہ شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے بھی کہا کہ بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف ماضی میں بھی مشرقی پاکستان کے حالات کی مثالیں دیتی رہی ہیں، لیکن موجودہ حالات میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کا پاکستان سے موازنہ کرنا مناسب ہے؟
تاہم اس سے قبل یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد، جو اپنی والدہ کے مشیر بھی تھے، نے کس تناظر میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا موازنہ کیا۔
بی بی سی کے پروگرام نیوز آور میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سجیب واجد نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ "بنگلہ دیش کا سیاسی مستقبل بھی پاکستان کی طرح ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش میں اسلامی شدت پسند دوبارہ سے اپنی جگہ بنائیں گے، جنہیں ان کی (سابق) حکومت نے بڑی مشکل سے محدود کیا تھا اور اب بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس بیان پر کوئی بھی ردعمل دینے سے انکار کیا ہے جبکہ متعدد سابق پاکستانی سفارت کاروں سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ "یہ ایک معیوب موازنہ اور تجزیہ ہے۔”
بنگلہ دیش کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں مِلے جلے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
ڈھاکہ سے وکیل رضوانہ مسلم نے بتایا کہ "یہ غصے یا بغض میں دیا گیا بیان ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی رہنما اب موجود نہیں ہیں،عوامی لیگ کی سابق حکومت نے ایسی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا تھا جو اسے طویل مدت میں نقصان پہنچا سکتی تھی۔
اس میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست تھی جس پر اب پابندی عائد ہوچکی ہے اور اس کی زیادہ تر قیادت اب ملک سے باہر ہے۔
رضوانہ مسلم کہتی ہیں کہ اب ان جماعتوں کا ملک واپس آنے کا جواز اس لیے نہیں بنتا کیونکہ بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک پرانے چہروں کو نہیں دیکھنا چاہتی اور وہ مذہبی حکومت کے حق میں بھی نہیں ہیں۔ تو اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔
نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری بھی بنگلہ دیش کے حالات کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کو درست نہیں گردانتے۔
انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "اگر آج بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیار شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
یاد رہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اُس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کو ‘باسکٹ کیس’ کہا تھا۔
یہ حالات 1974 میں مزید خراب اس وقت ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی اور اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔
مگر آج تقریباً 52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک اور فضلِ حسن عابد کا شروع کیا ہوا ادارہ ‘براک’ شامل ہیں۔
بنگلہ دیش اور پاکستان کا موازنہ: خدشات اور حقیقت
شیخ حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد نے کہا کہ "بنگلہ دیش کا سیاسی مستقبل بھی پاکستان کی طرح ہو سکتا ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش میں اسلامی شدت پسند دوبارہ سے اپنی جگہ بنائیں گے، جنہیں ان کی (سابق) حکومت نے بڑی مشکل سے محدود کیا تھا۔ اور اب بنگلہ دیش دوسرا پاکستان بننے جا رہا ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس بیان پر کوئی ردعمل دینے سے انکار کیا ہے جبکہ کئی سابق پاکستانی سفارت کاروں نے اسے "معیوب موازنہ اور تجزیہ” قرار دیا ہے۔
بنگلہ دیش کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔
بنگلہ دیش اور افغانستان کا موازنہ
نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسا بننے کے بجائے بنگلہ دیش کے افغانستان بننے کا خدشہ زیادہ ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے متاثر ہو کر کئی بنگلہ دیشی نوجوان وہاں چلے گئے تھے۔
طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ نوجوان واپس بنگلہ دیش آگئے، جس وقت شیخ حسینہ واجد کی حکومت کم عرصے کے بعد ختم ہوچکی تھی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔
بنگلہ دیش کے سیاسی ڈھانچے کی مضبوطی
پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں انڈیا سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خرم عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچہ بہت مختلف ہے۔
پاکستان میں فوج نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں تواتر سے جمہوری حکومتیں رہی ہیں، سنہ 2000 کے بعد سے زیادہ عرصہ جمہوری حکومتوں کا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دی ہے، خواتین باشعور ہیں، طلبہ یونین مضبوط ہیں اور ملک کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں، یہاں کی اپنی تہذیب، زبان ہے اور جمہوری اقدار کو تقویت دی جاتی ہے۔
فوجی آمریت کا امکان
ڈاکٹر خرم نے بنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا حکومت آنے کا سوال نہیں بنتا،اگر کسی ہائبرڈ نظام کو متعارف بھی کیا جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب بنگلہ دیش کے ملٹری چیف نے شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ ہم عبوری حکومت بنائیں گے، تب طلبہ یونین نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو بطور امیدوار سامنے لا کر اس بات کو رد کیا۔
طلبہ یونین کی اہمیت
ڈاکٹر خرم کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی مضبوط طلبہ یونین اور ان کی متحرک تحریک سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرے گی کیونکہ فوج میں بھی ان کے وفادار اور حامی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فوج میں ان کے حمایتی گروہ کی بنیادی وجہ شیخ حسینہ کی جانب سے اپنی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وفادار فوجیوں کو ترقی دینا ہے۔
مزید پڑھیں: محمد یونس بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ بنے
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آرمی چیف وقار الزمان کو دیکھیں تو ان کی وفاداری پہلے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ ہوگی۔
تاہم طلبہ یونین اب نہیں چاہے گی کہ شیخ حسینہ یا ان کی باقیات اب آنے والی حکومت کا حصہ بنیں،اس لیے پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔