سچ خبریں:ان دنوں سوڈانی فوج اور ریپڈ ری ایکشن فورسز کے درمیان لڑائی کے باعث اس کی صورتحال دنیا کے میڈیا کی خبروں میں سرفہرست ہے۔
حالیہ دنوں میں سوڈان علاقائی اور عالمی میڈیا کا اہم موضوع بنا ہوا ہے، دو عسکری تنظیموں (جنرل عبدالفتاح البرہان کی کمان میں سوڈانی فوج اور جنرل حمیدتی کی کمان میں ریپڈ ری ایکشن فورسز) کے درمیان اختلافات نے اس ملک کی صورت حال کو سنگین طور پر پیچیدہ بنا دیا ہے یہاں تک کہ بعض لوگ حالیہ برسوں میں دوسری بار سوڈان کی تقسیم کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں،اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ سوڈان نے حالیہ دہائیوں میں ہمیشہ بے شمار بدامنی کا سامنا کیا ہے، جن میں سب سے اہم فوجی بغاوتیں تھیں۔
سوڈان کی عصری تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1957 سے لے کر اب تک اس ملک میں گزشتہ 66 سالوں میں 15 فوجی بغاوتیں ہوئیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔
پرآشوب سرزمین
سوڈان میں حالیہ برسوں میں ہونے والی بغاوتوں پر ایک نظر:
1۔ 1957 میں اسماعیل کوبیدہ کی سربراہی میں فوجی افسران کے ایک گروپ نےاس ملک کی آزادی کے بعد سوڈان کی پہلی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی جو ناکام رہی۔
2. 1958 میں، جنرل ابراہیم عبود کی سربراہی میں سوڈانی فوج کے متعدد افسران نے مخلوط حکومت (امت پارٹی اور جمہوری اتحاد) کے خلاف بغاوت کی کوشش کی۔
3. 1969 میں جنرل جعفر النمیری کی سربراہی میں فری آفیسرز کے نام سے مشہور گروپ نے طویل عرصے کے سیاسی بحران کے بعد اس وقت کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی۔
4. 1971 میں سوڈان کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ کئی افسران نے ہاشم العطا کی کمان میں فوجی بغاوت کی کوشش کی جو دو دن تک جاری رہی،یہ بغاوت ناکام ہوگئی اور جنرل النمیری حکومت کرتے رہے۔
5۔ 1973 میں متعدد فوجی افسران نے جنرل النمیری پر مغرب سے تعلق رکھنے کا الزام لگایا اور ان کے خلاف بغاوت کی،یہ بغاوت تین دن کے بعد ناکام ہوگئی اور النمیری ایک بار پھر اقتدار میں آگئے۔
6۔ 1975 میں ایک فوجی افسر حسن حسین نے بغاوت کی کوشش کی،یہ بغاوت بھی ناکام ہوئی اور اس میں شامل تمام فوجیوں کو پھانسی دے دی گئی۔
7۔ 1976 میں فوجی افسروں میں سے ایک محمد نور سعد نے النمیری کے خلاف بغاوت کی کوشش کی، لیکن اس بغاوت کو النمیری نے سختی سے کچل دیا۔
8۔ 1985 میں سوڈانی فوج نے شدید احتجاج کے بعد النمیری کو ہٹا کر جنرل عبدالرحمت سوار الزھب کو ایک سال کے لیے سوڈانی گورننگ کونسل کا سربراہ مقرر کیا۔
9. 1989 میں عمر حسن البشیر نے اس وقت کے وزیراعظم صادق المہدی کی عوامی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی۔
10۔ 1990 میں سوڈانی فوج کے دو جرنیلوں عبدالقادر القدرو اور محمد عثمان نے عمر البشیر کے خلاف بغاوت کی لیکن ان کی بغاوت ناکام ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد عمر البشیر نے بغاوت کے رہنماؤں کو پھانسی دی ۔
11۔ 1992 میں کرنل احمد خالد نے بعث پارٹی کے خلاف بغاوت کی لیکن بغاوت کرنے والوں کو شکست ہوئی اور انہیں قید کر دیا گیا۔
12. 2019 میں سوڈان کی ملٹری کونسل نے کئی سالوں کے عوامی مظاہروں کے بعد عمر البشیر کو برطرف کر دیا۔
13. جولائی 2021 میں سوڈانی فوج نے جنرل عبدالفتاح البرہان اور ان کے نائب جنرل حمیدتی کی سربراہی میں سوڈانی ملٹری گورننگ کونسل کے خلاف بغاوت کی ناکامی کا اعلان کیا۔
14. ستمبر 2021 میں سوڈان کی حکومت نے عمر البشیر کی حکومت سے متعلق متعدد فوجی اور سیاسی شخصیات کی جانب سے بغاوت کی ناکامی کا اعلان کیا۔
15۔ اکتوبر 2021 میں سوڈانی فوج کے کمانڈر عبدالفتاح البرہان نے موجودہ حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
سوڈان میں ان دنوں کیا ہو رہا ہے؟
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سوڈان میں حالیہ مسلح تنازعات دراصل ملک پر حکمرانی کے لیے دو فوجی جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے، وہ جرنیل جو کل کے دوست اور آج کے دشمن ہیں۔اس نقطہ نظر کے حامیوں نے عبدالفتاح البرہان اور حمدتی کے درمیان مئی 2021 سے آج تک جاری تنازعات کو اس ملک کی موجودہ صورتحال کی وجہ قرار دیا،یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اکتوبر 2021 میں، سوڈان کی عوامی حکومت کی تحلیل کے بعد عبدالفتاح البرہان نے اس ملک میں جولائی 2023 (اب سے دو ماہ بعد) عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا، تاہم حالیہ مسلح تصادم میں سوڈانی فوج نے 250000 کے تخمینے کے مطابق افواج کے ساتھ ریپڈ ری ایکشن فورسز کے خلاف صف آرائی کی ہے جن کی تعداد 100000 تک ہے اس وجہ سے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ جنگ فوج کے تسلط کے بعد ختم ہو جائے گی۔
لیکن کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ سوڈان میں شروع ہونے والا حالیہ شدید مسلح تصادم، صرف جرنیلوں کے درمیان لڑائی نہیں ہے بلکہ کچھ غیر ملکی اداکار، جن میں کچھ عرب ممالک بھی شامل ہیں، اپنے مفادات کے حصول کے لیے سوڈان میں استحکام اور امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،سوڈان کی جغرافیائی سیاست کے ساتھ ساتھ ملک کے قدرتی وسائل کی اعلیٰ اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے کہ کچھ ممالک اس ملک کے معاملات میں مداخلت کی کوشش کریں گے۔
اس سلسلے میں سوڈان میں تزویراتی اور سکیورٹی امور کے سینئر تجزیہ کار بدرالدین الحکیم کا کہنا ہے کہ سوڈان میں تنازعات حالیہ دنوں میں البرہان اور حمدتی کے درمیان تیز رفتار امدادی فورسز کے انضمام کے حوالے سے اختلافات کے بعد شروع ہوئے۔ سوڈانی فوج میں اضافہ.. ان کے مطابق کچھ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ متعدد مغربی دارالحکومتوں نے جنرل حمیدتی سے انہیں سوڈان پر قبضہ کرنے کا وعدہ کیا اور انھیں حالیہ مسلح تنازعات شروع کرنے کی ترغیب دی، اس سے قبل جولائی 2022 میں حمدتی نے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی یہ واقعہ جنرل حمیدتی کے خلیج فارس کی سرحد سے متصل عرب ممالک میں سے ایک کے دورے کے بعد پیش آیا، جس کے بعد جنرل عبدالفتاح البرہان سمیت بعض فوجی عہدیداروں کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
مذکورہ نظریہ کے حامیوں کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں میں سوڈان کی تقسیم اور جنوبی سوڈان کی تشکیل کا باعث بننے والے ماڈل پر مبنی کچھ غیر ملکی اداکار وہ اپنے مفادات کے پیش نظر سوڈان کو تین الگ الگ ممالک میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسا منصوبہ جس کے بارے میں بات کرنا بھی بہت خطرناک ہے۔
خلاصہ
سوڈان کی موجودہ صورتحال کا باعث بننے والوں کی چاہے جو بھی مقصد ہو لیکن اس کے نتیجے میں بہت سے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، چاہیے یہ حالات بعض جرنیلوں کی اقتدار اور خودمختاری کی لالچ کی وجہ سے ہوں یا بعض بیرونی ممالک کی مذموم سازش ہو لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان سوڈان کے عوام کو ہی پہنچے گا، سوڈان جس نے حالیہ برسوں میں کبھی امن نہیں دیکھا، حالیہ جنگ کی وجہ سے اپنے بنیادی ڈھانچے میں مزید تباہی کا شکار ہو گا جس کا فائدہ صرف سوڈان کے دشمنوں کو پہنچے گا۔