سچ خبریں: ایک اندازہ ہے کہ ترک ڈرونز کے معاہدے کی میڈیا کوریج دراصل کویت اور سعودی عرب کے ایران کے خلاف میڈیا پرپگنڈے کا حصہ ہے تاکہ ان ڈرونز کے ساتھ آنے والے مذاکرات میں ترکی پوزیشن کو مضبوط کیا جا سکے اور اس کی فوجی موجودگی کو بڑھایا جا سکے۔
گزشتہ ہفتے ترک صدر نے خلیج فارس کے 3 عرب ممالک کا دورہ کیا،یہ دورہ ترکی میں ان ممالک کے تجارتی تبادلوں اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کے مقصد سے منعقد کیا گیا،اس سفر کے دوران ریاض اور انقرہ نے اکنجی ڈرون خریدنے پر اتفاق کیا، ڈرونز کی فراہمی کے اس معاہدے سے قبل یہ معاہدہ کویت کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاہدہ کیا گیا تھا جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ خلیج فارس میں ترکی کے فوجی اہداف کو کویت کو ترک ڈرونز کی فروخت کے تجربے کا جائزہ لینے سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ بھیہ پڑھیں: سعودی عرب اور ترکی کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا آغاز
کویتی حکام کے مطابق ترکی اور کویت نے اس ملک کی فضائیہ کو (TB2) ڈرون سے لیس کرنے کے لیے 367 ملین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کا مقصد آبی اور زمینی سرحدوں کی نگرانی کرنا ہے، یہ فوجی معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان عسکری میدان میں تعاون کی درجنوں دستاویزات میں سے ایک ہے جو کویت میں ترکی کی فوجی موجودگی کے گہرے ہونے کو ظاہر کرتا ہے اور یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ قطر کے بعد کویت خلیج فارس میں ترکی کا سب سے اہم شراکت دار ہے۔
خلیج فارس میں ترکی اور نیٹو کے فوجی مقاصد
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کے بعد ترکی اور کویت کے فوجی تعلقات میں مزید تیزی آئی ، اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان مشاورتی سرگرمیاں اور فوجی معاہدوں میں اضافہ ہوا یہاں تک کہ 2017 میں قطر کی طرح کویت میں بھی ترک فوجی اڈے کے قیام کا چرچا علاقائی میڈیا میں اٹھایا گیا، جسے سعودی دباؤ کے باعث میز سے ہٹا دیا گیا، تاہم دو سال بعد 2019 میں، کویت-ترک فوجی کمیٹی کے پانچویں اجلاس کے دوران دفاعی تعاون ایکشن پلان کے عنوان سے ایک معاہدہ طے پایا جس کی بنیاد پر دونوں ممالک فوجی تعاون کو مضبوط اور گہرا کرنے کے لیے اقدامات کریں گے، اس معاہدے نے اس وقت سعودی حکام کو غصہ دلایا کیونکہ سعودی حکام میں سے ایک (خالد بن عبداللہ السعودی) نے ٹوئٹر پر لکھا کہ اخوان کو ختم کرنے کے لیے کویت میں آپریشن اسٹارم آف ول (یمن میں سعودی فوجی آپریشن کا نام) کیا جانا چاہیے اس لیے کہ سعودی عرب خلیج فارس کے جنوبی ساحل کو اپی تفریح گاہ سمجھتا ہے اور یہاں ترکی کی فوجی موجودگی کو اپنے مفادات کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے، بلاشبہ یو اے وی کی خریداری کا معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ فوجی معاہدے کا واحد حصہ ہے،یو اے وی کے علاوہ ترکوں نے کویت میں نیٹو کے معیارات پر مبنی الیکٹرانک جنگی نظام کی تعیناتی کا وعدہ کیا ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہوگا جبکہ نیٹو کے معیارات کا حوالہ دینا دراصل خلیج فارس کے ممالک بشمول کویت کے ساتھ نیٹو کے فوجی اور اسٹریٹجک تعاون کی توسیع ہے جو دو دہائیاں قبل شروع ہوا تھا اور اب اہم مراحل تک پہنچ چکا ہے۔
خلیج فارس کے ممالک کا سکیورٹی اور فوجی تعاون کا عمل 2004 میں استنبول انیشی ایٹو (ICI) تک پیچھے جاتا ہے جس کے دوران اس خطے میں استحکام کو برقرار رکھنے کے مقصد سے شمالی بحر اوقیانوس کا معاہدہ جنوبی خلیج فارس میں باضابطہ موجودگی کے لیے لاگو کیا گیا جو درحقیقت ترکی کی موجودگی اس معاہدے کا حصہ ہے اور NA TO کے فریم ورک میں ترکی کی ذمہ داری ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ پالیسیوں اور سیاسی شو سے قطع نظر، ترک حکومت نے خلیج فارس میں نیٹو اور مغربی منصوبوں کو آگے بڑھانے کی سمت میں اسٹریٹجک اقدامات کیے ہیں۔
خلیج فارس کے عرب ممالک کی ترکی کے ساتھ فوجی تعلقات قائم کرنے کی وجوہات
اس دوران خلیج فارس میں علاقائی اور ماورائے علاقائی اداکاروں کو لانے میں کویت کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے جبکہ اس کی شروعات 70 کی دہائی میں کویت کی درخواست پر خلیج فارس میں امریکی فوجی موجودگی سے ہوئی، جس کی وجہ اس ملک کی مخصوص جغرافیائی سیاسی پوزیشن ہے، جو 3 مزید طاقتور پڑوسیوں (ایران، عراق اور سعودی عرب ) کے درمیان ایک چھوٹا ملک ہے، ایک دن سے بھی کم عرصے میں صدام کے قبضے میں آنے کے تلخ تجربے نے کویت نے علاقائی اور ماورائے علاقائی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے اپنی سٹریٹجک کمزوری کی تلافی کی ہے،اس سلسلے میں کویت نے 3 دہائیوں تک امریکہ کی فوجی موجودگی پر انحصار کرتے ہوئے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی کوشش کی لیکن باراک اوباما کے دور میں مشرق کی طرف موڑ کہلانے والی امریکی حکمت عملی کی تبدیلی کے ساتھ ہی خلیج فارس میں فوجی موجودگی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس خطے میں تیل پر انحصار کم کرنے اور مشرقی کویت میں چین کی موجودگی کو مضبوط کرنے کی حکمت عملی طے کی گئی اور بحیرہ کویت کے دیگر چھوٹے ممالک میں چین کی موجودگی کو یقینی بنایا جس نے دوسرے اداکاروں کو اس خطے میں موجود ہونے کی دعوت دیں۔
مزید پڑھیں: ترکی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر
البتہ ایسا لگتا ہے کہ ترکی کے ساتھ فوجی معاہدے کی میڈیا کوریج کا تعلق کویت ریاض یا کویت بغداد سے زیادہ تہران کے ساتھ تعلقات سے ہے کیونکہ دو ہفتے قبل سے کویت کے حکام اور میڈیا نے آرش آئل فیلڈ میں سمندری حدود کے تنازع کو بہانہ بنا کر ایران کے خلاف میڈیا وار شروع کر رکھی ہے، کویتیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ پوری آئل فیلڈ کویت اور سعودی عرب کی ملکیت ہے جبکہ شیل آئل کمپنی کی سیسمک رپورٹ کی بنیاد پر وہ اس فیلڈ میں ایران کے 40 فیصد حصے کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ 1961 میں کویت کے قیام سے قبل ایران اور سعودی عرب کے درمیان قائم سرحدوں کی بنیاد پر آرش فلیڈ کے کچھ حصے جنہیں کویتی الدوراء کہتے ہیں، کا تعلق ایران سے ہے، ان تمام سالوں میں کویت نے اس میدان میں ایران کے ساتھ باضابطہ طور پر مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے حتیٰ کہ 80 کی دہائی میں جب ایران کا اس میدان سے دستبردار ہونے کا منصوبہ تھا، کویت کے امیر نے تہران کے دورے کے دوران، اس مسئلے کے سیاسی حل کا وعدہ کیا، اور تہران کو اس وقت اس میدان میں ڈرلنگ کی کاروائیوں کو روکنے کے لیے قائل کیا۔
ایک اندازہ ہے کہ ترک ڈرونز کے معاہدے کی میڈیا کوریج دراصل کویت اور سعودی عرب کے ایران کے خلاف میڈیا پرپگنڈے کا حصہ ہے تاکہ ان ڈرونز اور ترکی کی فوجی موجودگی کو وسعت دینے سے وہ آئندہ ہونے والے مذاکرات میں اس کی پوزیشن مضبوط کر سکیں، بلاشبہ یہ بات کسی کے لیے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ علاقائی مسائل کے حوالے سے ایران کا موقف غیر تبدیل شدہ ہے اور یہ سیاسی چالبازیاں آرش آئل فیلڈ سے فائدہ اٹھانے کے تہران کے منصوبے کو تبدیل نہیں کریں گی۔